امریکہ کے صدر براک اوباما کا بطور صدر اپنا آخری غیر ملکی دورہ اتوار کو پیرو میں اختتام پذیر ہوا جس میں وہ دیگر عالمی راہنماؤں کو امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے تناظر میں اپنے ملک کی طرف سے مختلف یقین دہانیاں کروانے کی کوشش میں مصروف رہے۔
اوباما نے اکیسویں ایشیا پیسیفک اقتصادی کانفرنس "اپیک" میں شریک راہنماؤں سے اتوار کو ملاقاتیں کیں اور ان سے ٹرانس پیسیفک تجارتی معاہدے پر اپنے ملک کی حمایت کا یقین دلایا۔
صدر کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس تین ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے جو کہ عالمی سطح پر متوسط طبقے کی اکثریت پر مشتمل ہے۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ اب بھی اس تجارتی معاہدے کا حصہ بن سکتا ہے اور ان کے بقول صحیح سمت میں تجارت ترقی کا سبب سکتی ہے۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹرانس پیسیفک تجارتی معاہدے کے ناقد اور مخالف رہے ہیں۔
اوباما کا کہنا تھا کہ "اپیک" کے راہنما اپنی اقتصادیات میں خواتین کو با اختیار بنا کر پیش رفت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے پر عملدرآمد کو بھی ایک ترجیح قرار دیا۔
تجارت، ماحولیاتی تبدیلی اور دیگر امور پر امریکی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تبدیل ہو سکتی ہیں کیونکہ اپنی انتخابی مہم میں اس بابت کھل کر بات کرتے رہے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ کانفرنس کے دوران ان کی روسی صدر ولادیمر پوتن سے مختصر بات چیت ہوئی جس میں یوکرین اور شام کے معاملات پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے پوتن کو بتایا کہ امریکہ شام میں جاری خون خرابے پر شدید تشویش میں مبتلا ہے۔
ان کے بقول امریکی انتخابات میں روس کی "مداخلت" کا معاملہ زیر بحث نہیں کیا کیونکہ یہ "گزر چکا ہے۔"
اپنے دورے کے اختتام پر ہونے والی پریس کانفرنس میں اوباما نے نئے صدر ٹرمپ کے لیے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں امن و استحکام کے لیے امریکی قیادت ناگزیر ہے۔
"اگر ہم اس جانب نہیں ہیں جو کہ درست سمت ہے تو پھر یہ برباد ہو جائے گی اور پھر کوئی نہیں جو اس خلا کو پر کر سکے۔"
صدر نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ مدت صدارت مکمل ہونے کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی اہلیہ مشیل کو لے کر چھٹیاں منانے جائیں اور آرام کریں۔ انھوں نے کہا کہ وہ نئے صدر سے متعلق قابل احترام رہیں گے اور انھیں موقع دیں گے۔
تاہم اوباما نے کہا کہ اگر امریکی اقدار کے منافی کچھ ہوتا دکھائی دیا تو وہ اس پر بات کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔