رسائی کے لنکس

امریکہ: ایوان کی مخالفت، ٹریڈ اتھارٹی بِل تاخیر کا شکار


بِل پر رائے شماری سے عین قبل جمعے کو صدر براک اوباما نے بھی ڈیموکریٹ ارکان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کانگریس کا دورہ کیا تھا۔
بِل پر رائے شماری سے عین قبل جمعے کو صدر براک اوباما نے بھی ڈیموکریٹ ارکان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کانگریس کا دورہ کیا تھا۔

ایوانِ نمائندگان نے اوباما انتظامیہ کے اس منصوبے کو بھاری اکثریت سے مسترد کردیا ہے جس کا مقصد امریکہ کے تجارتی معاہدوں کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے امریکیوں کو مالی مدد فراہم کرنا تھا۔

امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان نے صدر براک اوباما کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ ایشیا-پیسیفک تجارتی معاہدے سے متعلق بِل کی اہم شقوں کو مسترد کردیا ہے۔

جمعے کو ایوانِ نمائندگان نے اوباما انتظامیہ کی جانب سے بِل میں تجویزہ کردہ اس منصوبے کو بھاری اکثریت سے مسترد کردیا جس کا مقصد ایشیائی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تجارتی معاہدوں کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے امریکیوں کو مالی مدد فراہم کرنا تھا۔

ایوان کے ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن دونوں جماعتوں کے ارکان کی اکثریت نے مجوزہ منصوبے کی مخالفت کی۔ بِل کی مخالفت میں 302 ووٹ آئے جب کہ ایوان کے صرف 126 ارکان نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا۔

تاہم ایوان نے مجوزہ تجارتی معاہدے پر دیگر ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کی جانے والی اتھارٹی کی مدت میں توسیع کا قانون معمولی اکثریت سے منظور کرلیا۔

لیکن بے روزگار کارکنوں کی مدد کےلیے پیش کیا جانے والا منصوبہ رد ہونے کے سبب ایوان کی جانب سے 'ٹریڈ پروموشن اتھارٹی' کا منظور کیا جانے والا بِل قانون کی شکل اختیار نہیں کرسکے گا۔

بِل کی حمایت کرنے والے ایوان کے ایک ری پبلکن رکن نے کہا ہے کہ پارٹی رہنما رد کی جانے والی شقیں منگل کو ایوان سے دوبارہ منظور کرانے کے لیے ارکان کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر ری پبلکن ارکان کی کوششیں کامیاب رہیں تو صدر اوباما 'ٹریڈ پروموشن اتھارٹی' کے مکمل بِل پر دستخط کردیں گے جس کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔

بِل پر رائے شماری سے عین قبل جمعے کو صدر براک اوباما نے بھی ڈیموکریٹ ارکان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کانگریس کا دورہ کیا تھا۔

کانگریس کے ڈیمو کریٹ ارکان کی اکثریت کو خدشہ ہے کہ 'ٹرانس-پیسیفک پارٹنر شپ' (ٹی پی پی) نامی مجوزہ تجارتی معاہدے کے نتیجے میں امریکہ سے ہزاروں ملازمتیں بیرونِ ملک منتقل ہوجائیں گی جب کہ اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی سرگرمیوں سے قدرتی ماحول بھی متاثر ہوگا۔

جمعے کو بے روزگار ملازمین کی مالی معاونت سے متعلق بِل کے حصے کی مخالفت میں ووٹ دینے والوں میں 144 ڈیموکریٹ ارکان کے ساتھ ساتھ 158 ری پبلکن ارکان بھی شامل تھے۔

ری پبلکن قانون ساز عموماً اس نوعیت کے فری ٹریڈ معاہدوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن کئی ری پبلکن ارکان 2016ء کے صدارتی انتخاب سے قبل صدر اوباما کو اس معاہدے کا کریڈٹ دینے پرتذبذب کا شکار ہیں۔

ری پبلکن ارکان کو خدشہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ طے پاگیا تو یہ وہائٹ ہاؤس میں اپنا آخری ڈیڑھ سال گزارنے والے صدر اوباما کی ایک بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا اور انتخابات میں ڈیموکریٹ کے حق میں جاسکتا ہے۔

مجوزہ قانون کا مقصد 'ٹریڈ پروموشنل اتھارٹی' کے قیام کی مدت میں توسیع کرنا ہے جس کے نتیجے میں وہائٹ ہاؤس 12 ایشیائی ملکوں کے ساتھ مجوزہ تجارتی معاہدے پر مذاکرات کرسکے گا جب کہ کانگریس اس معاہدے میں کسی رد و بدل کا اختیار نہیں ہوگا۔

ڈیموکریٹ ارکان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے صدر اوباما نے اس تجارتی معاہدے کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے امریکی محنت کشوں کی مدد سے متعلق 'ٹریڈ ایڈجسٹمنٹ اسسمنٹ' نامی پروگرام بھی بِل میں شامل کیا ہے لیکن ایوان کے ارکان کے تحفظات تاحال برقرار ہیں۔

اگر کانگریس نےمجوزہ بِل کی منظوری میں تاخیر کی تو اوباما انتظامیہ کے لیے شریک ملکوں کے ساتھ 'ٹی پی پی' معاہدے پر اتفاقِ رائے کا حصول مشکل ہوجائے گا جو پہلے ہی کئی سال کی تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔

اس سےقبل جمعرات کو وہائٹ ہاؤس کے سینئر حکام نے کیپٹل ہل میں ایوانِ نمائندگان کے ڈیموکریٹ ارکان کے ساتھ بند دروازے کے پیچھے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے ارکان کو بِل کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

بعد ازاں صدر اوباما اچانک واشنگٹن میں جاری سالانہ کانگریس بیس بال ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے خود بھی کئی ارکان کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔

'ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ' معاہدے پر مذاکرات کرنے والے ملکوں میں امریکہ کے علاوہ ویتنام ، سنگاپور، پیرو، نیوزی لینڈ، میکسیکو، ملائیشیا، جاپان، چلی، کینیڈا، برونائی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ جب کہ معاہدہ طے پانے کے بعد اس میں مزید ہم خیال ملکوں کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔

امریکہ کی قیادت میں جاری ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں دنیا کی 40 فی صد معاشی پیداوار مجوزہ معاہدے کے دائرہ کار میں آجائے گی۔

وہائٹ ہاؤس کا موقف ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں رکن ملکوں کو بین الاقوامی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے، نئی منڈیوں کی تلاش اور شرحِ نمو میں اضافے کے مواقع میسر آئیں گے جس سے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔

XS
SM
MD
LG