رسائی کے لنکس

بھارت میں ہر 15 منٹ کے بعد ریپ کا ایک مقدمہ درج ہوتا ہے: رپورٹ


دہلی میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ ریپ کے خلاف خواتین کا مظاہرہ۔
دہلی میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ ریپ کے خلاف خواتین کا مظاہرہ۔

بھارت میں سن 2018 کے دوران ہر پندرہ منٹ کے بعد کسی نہ کسی خاتون نے اپنے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کرایا۔ یہ بات ایک حالیہ سرکاری رپورٹ میں بتائی گئی ہے، جس سے بھارت سے متعلق یہ عمومی رائے مزید پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں خواتین کے لیے غیر محفوظ ملک ہے۔

خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے جس واقعے کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ ذکر ہوا وہ 2012 میں نئی دہلی میں پیش آیا، جس میں ایک بس میں سوار ہونے والی میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کو اوباش لڑکوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے اور اس کے ساتھی کو چلتی بس سے نیچے پھینک دیا تھا۔ لڑکی کئی روز زیر علاج رہنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں ہلاک ہو گئی تھی۔

اس واقعے کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اور زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین اور سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا۔

اس واقعے میں ملوث افراد کو عدالت نے موت کی سزا سنائی اور سپریم کورٹ کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل مسترد ہونے کے بعد ان کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سخت تر سزاؤں کے باوجود، بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتیوں کے واقعات میں کمی نہیں آ سکی اور وہ اب بھی باہر نکلتے ہوئے خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔

سن 2017 میں جنسی زیادتی کا ایک اور واقعہ جس کا میڈیا میں بہت ذکر ہوا اور اس کے خلاف وسیع احتجاج بھی کیا گیا، وہ جے پی کے سابق ریاستی رکن کلدیپ سنگھ سنگار کا تھا۔ پولیس کی جانب سے مقدمے میں عدم دلچسپی کی بنا پر الزام لگانے والی خاتون نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی کوشش بھی کی۔

پچھلے سال دسمبر میں سنگار کو سزا سنائی گئی۔ لیکن، اس سے پانچ ماہ قبل ایک ٹرک نے اس کار کو ٹکر مار دی جس میں ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون سمیت اس کے خاندان کے افراد سوار تھے۔ ٹکر کے نتیجے میں الزام لگانے والی خاتون شدید زخمی اور اس کے دو رشتے دار ہلاک ہو گئے تھے۔

بھارتی حکومت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے لگ بھگ 34000 واقعات کا اندراج ہوا۔ یہ شرح تقریباً ایک سال پہلے رپورٹ ہونے والے واقعات کے مساوی ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ بہت سے واقعات بدنامی کے خوف سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔

وزارت داخلہ کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں ملوث 85 فی صد سے زیادہ افراد پر مقدمات چلائے گئے اور 27 فی صد کو سزائیں ہوئیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کہتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم کو عموماً سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور پولیس ان کی تفتیش میں دلچسپی نہیں دکھاتی۔

نیشنل کمشن فار وومن کی سابق صدر، للیتھا کمار امنگالم کہتی ہیں کہ ''بھارت میں اب بھی مرد حکمران ہیں، سوائے اندرا گاندھی کے تمام وزائے اعظم مرد تھے۔ اندرا کو بھی کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ عدالتوں میں زیادہ تر جج مرد ہیں''۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں فرانزک لیباٹریز بہت کم ہیں اور تیز رفتاری سے سماعت کرنے والی عدالتیں بھی محدود ہیں۔ ایسی صورت حال میں، خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG