رسائی کے لنکس

قرآن کا قدیم قلمی نسخہ دریافت


برمنگھم یونورسٹی کا کہنا ہے کہ قرآن پاک کا ریڈیو کاربن ٹیسٹ کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نسخہ 1370 سال پرانا ہے۔

برمنگھم یونیورسٹی سے قرآن کا صدیوں پرانا نسخہ برآمد ہوا ہے۔خیال ہے کہ قرآن کا یہ ہاتھ سے تحریر شدہ نسخہ عراق کے شہر موصل سے یہاں لایا گیا تھا۔

یونورسٹی کا کہنا ہےکہ قرآن کا ریڈیو کاربن ٹیسٹ کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نسخہ1370 سال پرانا ہے، اور اگر یونیورسٹی کا دعویٰ درست ہےتو یہ ممکنہ طور پر قرآن کے دریافت شدہ قدیم نسخوں میں سے ابتدائی نسخہ ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلیریٹر یونٹ میں قرآن کےخستہ حال کاغذ اور سیاہی کی باقاعدہ سائنسی جانچ پڑتال کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ نسخہ بکری یا بھیڑ کی چمڑی پر لکھا گیا ہے۔

ماہرین نے ریڈیو کاربن ٹیسٹ کے 95 فیصد سے زیادہ درست نتائج کے ساتھ بتایا ہے کہ یہ نسخہ 568 سے645 ہجری میں لکھا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پیغمبر اسلام حیات سے تھے۔

اگرچہ دور نبوت کے اختتام تک قرآن مکمل طور پر تحریری شکل میں موجود تھا اور لوگوں کی یاداشت کی صورت میں بھی محفوظ کیا چاچکا تھا لیکن الہامی پیغام کو کتاب کی شکل میں مرتب نہیں کیا گیا تھا۔

یہ نایاب نسخہ لگ بھگ ایک صدی تک برمنگھم کی لائبریری میں دوسری دستاویزات اور کتابوں کے درمیان نامعلوم رہا۔ یہ نسخہ ایک دوسرے ساتویں ہجری کے قرآن کی جلد کے اندر موجود تھا، جسے ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم نے دریافت کیا ہے۔

برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری کےخاص مجموعہ کا اہتمام انسان دوست جارج کیڈبری کی طرف سے 1920 میں کیا گیا تھا ۔جنھوں نے مشرق وسطی سے 3000 سے زائد مسودات کا ایک مجموعہ لائبریری کے لیے منگوایا تھا۔

یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ تیرہ سو برس قدیم نسخے پر تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اسے پیغمبر اسلام کے وصال کے تقریبا 20 برس بعد لکھا گیا ہوگا.

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ جو دو ورق اور ایک سورت کی 18 سے20 آیات پر مشتعمل ہے شاید کسی ایسے شخص نے لکھا ہے،جو پیغمبر اسلام کے قریب تھے یا انھوں نے پیغمبر کو تبلیغ کرتے سنا ہوگا یا پھر وہ پیغمبر کو ذاتی طور پر جانتے ہوں گے اور یہ ایک اہم بات ہے۔

قرآن پاک کا یہ نسخہ خوبصورت اور واضح حجازی لکھائی میں سیاہی کے ساتھ لکھا گیا ہے،جو پیغمبر اسلام کی حیات کے وقت رائج تھا۔

برمنگھم یونیورسٹی میں اسلام اور عیسایت کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے اسکائی نیوز کو بتایا 'کہ یہ ایک چونکا دینے والا نتیجہ ہے،جس نے یونیورسٹی کےمجموعے میں سے حیرت انگیز راز کا انکشاف کیا ہے ۔'

انھوں نے کہا کہ'اس تاریخ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے چند سال بعد کا نسخہ ہے اور اگر نسخہ واقعی اتنا قدیم ہےتو یہ اسلام کے پیغمبر حضرت محمد کا زمانہ تھا وہ چھٹی اور ساتویں ہجری میں حیات تھے'۔

انھوں نے کہا کہ 'لائبریری میں پائے جانے والے نسخے سے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ قرآن کے حصے ابتدائی دنوں سے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے اور قرآن کا وہ حصہ جو چمڑے کے ان دو ورق پر موجود ہے بے شک قرآن کی موجودہ شکل سے بہت قریب ہے۔'

یونیورسٹی کی خصوصی مجموعے کی ڈائریکٹر سوسن وورل نے اس دریافت کو سنسنی خیز قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ریڈیو کاربن ٹیسٹ نے ایک دلچسپ نتیجے کو جنم دیا ہے،جس سے قرآن کی ابتدائی شکل کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔

پروفیسر سوسن وورل کے مطابق، 'ہم بہت پرجوش ہیں کیونکہ اتنے اہم تاریخی دستاویزات یہاں برمنگھم سے ملے ہیں، جو برطانیہ کا سب سے متنوع ثقافت رکھنے والا شہر ہے‘۔

برٹش لائبریری میں فارسی اور ترکی مسودات کے ماہر محمد عیسی ویلی نے کہا کہ' ہم اب جان گئے ہیں کہ حجازی رسم الخط میں ہاتھ سے تحریر کردہ یہ دو ورق بلاشبہ مسلمانوں کے پہلے تین خلفائے راشدین کے زمانے کے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ 'حیران کن حجازی لکھائی کے ساتھ قرآن کے قدیم نسخے کی دریافت ایک نئی خبر ہے، جسے سن کر مسلمان خوش ہوں گے'۔

قرآن پاک کا یہ نسخہ برمنگھم فائن آرٹس شعبہ میں اکتوبر میں عوامی نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا ۔

ظہور اسلام کے وقت اور اس کے بعد فن تحریر:

مورخین نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام کی بعثت سے کچھ عرصہ پہلےجزیرہ عرب کے کونے کونے میں کتابت کا انحصار چند گنے چنے لوگوں پر تھا۔ ان ہی میں ابوسفیان کے والد حرب بن امیہ بھی شامل تھے، جو کتابت اور رسم الخط میں قریشیوں کے استاد تھے۔

مکہ کے قبیلہ قریش کے لوگوں نے ان سے جو رسم الخط سیکھا تھا وہ انباری حیری رسم الخط تھا ،جو حجاز میں منتقل ہونے کے بعد حجازی رس الخط کے نام سے موسوم ہوا اور اس وقت کاتبین عرب کے ہاں یہی لکھائی رائج تھی۔

جب اسلام دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا تو اس کی کتابت وحی کے لیے بھی اسی رسم الخط کو اختیار کیا گیا، جبکہ نبی کی مدنی زندگی میں حجازی لکھائی کو اہل کوفہ کی لکھائی سے موسوم کردیا گیا۔

اس زمانے میں جب قرآن تھوڑا تھوڑا وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام پر نازل ہوتا تھا تو صحابہ قرآنی آیات کو حفظ کرنے کے بعد زبانی لوگوں تک پہنچایا کرتے تھے، اس زمانے میں کاغذ کی کم یابی کی وجہ سے صحابہ کرام قرآن کی کتابت کاکام کھجور کے پتوں، پتھروں، کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں اور اونٹ کے شانے کی ہڈیوں پر کیا کرتے تھے۔

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق نے حضور کی وفات کے بعد قرآنی آیات کو اکھٹا کرنے کا حکم دیا جبکہ آخری مستند تحریری صحیفہ قرآن تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کی خلافت میں سنئہ 650 ہجری میں منظر عام پر لایا گیا تھا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ تاتاریوں میں جنھوں نے دسویں ہجری میں اسلام قبول کر لیا تھا ان میں پہلے سے قرآن کی کتابت کرنے کی روایت موجود تھی۔قرآن مجید ہر تاتار کے گھر پر ہوا کرتا تھا حتیٰ کہ جب قرآن پاک چھاپا جانے لگا تو بھی ہاتھ سے قرآن تحریر کرنے کی روایت برقرار رکھی گئی کہا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ پرانا نسخہ محفوظ نہیں رکھا جاسکا ہے۔

XS
SM
MD
LG