رسائی کے لنکس

اومکرون کی آمد نے کرونا ویکسین کی دستیابی میں عدم مساوات کو اجاگر کر دیا


جاپان میں ٹوکیو کے ایئرپورٹ پر مسافروں کو وہیل چیئرز فراہم کرنے والا عملہ اومکرون کے پھیلاؤ کے باعث پروازیں بند ہونے کے پہلے دن ماسک پہنے مسافروں کا انتظار کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2021
جاپان میں ٹوکیو کے ایئرپورٹ پر مسافروں کو وہیل چیئرز فراہم کرنے والا عملہ اومکرون کے پھیلاؤ کے باعث پروازیں بند ہونے کے پہلے دن ماسک پہنے مسافروں کا انتظار کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2021

کرونا وائرس کی نئی جینیاتی قسم اومکرون کا ظہور نہ صرف اس مہلک وبا پر قابو پانے میں دنیا کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی یقین دہانی ہے کہ سائنس دان مہینوں سے انتباہ کر رہے تھے کہ اس عالمگیر وبا کا پھیلاؤ اور اس کے ویریئنٹس کو اس وقت تک روکنا ممکن نہیں ہے جب تک دنیا کے تمام حصوں کو اس کی ضرورت کے مطابق ویکسین فراہم نہیں کر دی جاتی۔

امیر ملکوں میں ویکسین کی ذخیرہ اندوزی اور غریب ملکوں کی محرومی کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ امیر ملک بھی کرونا وائرس کے شکنجے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں وائرس کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کو روکا نہیں جا سکتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وبا ان آبادیوں میں تیزی سے پھیلتی ہے جہاں ویکسین لگانے کی شرح کم ہوتی ہے۔ ایسی جگہوں پر یہ خطرات بھی زیادہ شدت سے موجود ہوتے ہیں کہ وائرس اپنی جینیاتی ہئیت تبدیل کر کے زیادہ طاقت ور ہو جائے اور بعض صورتوں میں تو پہلے سے موجود ویکسینز بھی اس کا پھیلاؤ روکنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ یہ صورت حال بہت خطرناک ہوتی ہے اور وبا پر قابو پانے کے لیے اس سے قبل کی جانے والی کوششوں پر پانی پھر جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ویکسین کی تقسیم کے پروگرام 'کو ویکس' میں شامل ایک گروپ سی ای پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر رچرڈ ہیچٹ کہتے ہیں کہ ' وائرس بے رحم اور موقع پرست ہوتا ہے۔ وائرس کے خلاف عدم مساوات پر مبنی ردعمل نے اس کا پھیلاؤ مزید آسان بنا دیا ہے۔

'کرونا کی نئی قسم سب سے پہلے بچوں اور صحت مند افراد پر اثر انداز ہوئی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:35 0:00

ویکسین کی تقسیم میں عدم مساوات افریقہ میں زیادہ نمایاں دکھائی دیتی ہے جہاں کی 7 فی صد سے بھی کم آبادی کو ویکسین مل سکی ہے۔ حال ہی میں جنوبی افریقہ کے ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کو آگاہ کیا کہ ان کے ملک میں کرونا وائرس کے ایک نئے ویریئنٹ کی نشاہدی ہوئی ہے۔ طبی ماہرین یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کتنی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔

اقوام متحدہ کے کوویکس پروگرام کے تحت افریقہ کو 2021 کے اختتام تک ویکسین کی ایک ارب 40 کروڑ خوراکیں فراہم کی جانا تھیں، جس کا مطلب ہے کہ روزانہ ڈھائی کروڑ خوراکوں کی ترسیل۔ لیکن اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ اکتوبر کے آغاز سے روزانہ کی اوسط 40 لاکھ خوراکیں فراپم ہو رہی ہیں۔

دوسری جانب امیر ملکوں میں ویکسین ان کی ضرورت سے زیادہ موجود ہے اور وہاں لوگوں کو دو خوراکوں کا کورس مکمل کرنے کے بعد تیسری بوسٹر خوراک بھی دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بوسٹر اصل میں ویکسین کی وہ خوراک ہے جس کے زیادہ ضرورت مند غریب ملکوں کے لوگ ہیں جنہیں ابھی تک ایک خوراک بھی نہیں مل سکی ہے۔

برطانیہ کے ایک تھینک ٹینک چیتھم ہاؤس کے 'ون ہیلتھ پراجیکٹ' کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان ڈار کہتے ہیں کہ ہر ایک کے لیے اس وبا کے بڑھتے ہوئے خطرے کی صورت حال عالمی سطح پر بیماریوں اور کمزور صحت کے خلاف جنگ میں عدم مساوات کے معاملے میں غیر سنجیدگی کو نمایاں کرتی ہے۔

اسی طرح آکسفام میں ہیلتھ پالیسی مینیجر انیا میریٹ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کوویکس کی ٹیم دنیا بھر میں جلد از جلد ویکسین کی تقسیم کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن جب اسے مطلوبہ مقدار میں ویکسین فراہم ہی نہیں ہو گی تو وہ اسے تقسیم کیسے کرے گی۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر کے وسط تک کو ویکس کے ساتھ ویکسین کے عطیات سے متعلق کیے گئے وعدوں میں سے صرف 12 فی صد تک پورے ہو سکے تھے۔

سائںس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ ویکسینز اومکرون کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔
سائںس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ ویکسینز اومکرون کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔

پچھلے ہفتے 'کو ویکس' نے اپنے ایک بیان میں یورپی یونین کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے اس سال کے آخر تک افریقہ کو ویکسین کی 10 کروڑ خوراکیں عطیہ کرنے کا وعدہ کیا ہے، جب کہ حقیقت میں اب تک ویکسین کا صرف 20 حصہ ہی بھیجا گیا ہے۔

ایک جانب تو غریب ملکوں کے لیے ویکسین کے عطیات کے وعدے ان کی ضرورت سے کہیں کم کیے گئے ہیں تو دوسری جانب ایک اور پہلو بھی سامنے آ رہا ہے۔ کوویکس کے لیے ویکسین کی فراہمی کے اتحاد نے، جیسے گیوی کہا جاتا ہے، اس ہفتے ایک ایگزیکٹو اجلاس کے لیے تیار کیے جانے والے نکات میں کہا ہے کہ امیر ممالک غریب ملکوں کے لیے ویکسین کے پرانے اسٹاک بھیج رہے ہیں جس سے اس پورے منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

پیر کے روز، ڈبلیو ایچ او اور افریقی یونین کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اب تک فراہم کیے جانے والے زیادہ تر عطیات یا تو وقتی نوعیت کے ہیں یا وہ ایسی ویکسین پر مشتمل ہے، جس کی میعاد کے ختم ہونے میں بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔

جوہانسبرگ میں ایک خاتون اپنے بچے کو ویکسین لگوا رہی ہے۔ افریقہ میں ویکسین لگانے کی شرح صرف 7 فی صد ہے۔
جوہانسبرگ میں ایک خاتون اپنے بچے کو ویکسین لگوا رہی ہے۔ افریقہ میں ویکسین لگانے کی شرح صرف 7 فی صد ہے۔

گیوی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی فراہمی کے ساتھ کئی دوسرے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں، جن میں لاجسٹکس کا معاملہ سرفہرست ہے۔ وہ یہ کہ ویکسین صحیح وقت پر صحیح ملک میں پہنچائی جائے۔ اس کے ساتھ سرنجیں اور ویکسین کو محفوظ رکھنے کا ضروری سامان بھی ہو اور تیسرا مسئلہ ان لوگوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کرنا ہے جو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایک اور معاملہ یہ بھی ہے کہ کئی غریب ملکوں کے پاس اپنے لوگوں کو ویکسین لگانے کے انتظامات اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر کانگو میں حکام نے اس موسم گرما میں ویکسین کی اپنی پوری کھیپ کوویکس کو یہ کہتے ہوئے واپس کر دی کہ وہ میعاد ختم ہونے سے پہلے لوگوں کو ویکسین لگانے کا انتظام نہیں کر سکیں گے۔

تاہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈہاٖنوم گیبریئس نے کہا کہ اصل مسئلہ تقسیم کا نہیں بلکہ غریب ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کی راہ میں واحد رکاوٹ سپلائی ہے۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG