رسائی کے لنکس

بمباری سے بچنے کے لیے غزہ کے شہری پیدل اور گدھا گاڑیوں پر فرار ہونے لگے


غزہ کےرہائشی گدھا گاڑٰیوں اور پیدل شہر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
غزہ کےرہائشی گدھا گاڑٰیوں اور پیدل شہر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

غزہ سے باہر نکلنے والے راستوں پر بدھ کے روز پریشان حال لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنا سامان اٹھائے ہوئے پیدل یا گدھا گاڑیوں پر جاتی ہوئی دکھائی دی۔ان کی منزل دیر البلاح تھی۔ یہ 75 ہزار آبادی کا ایک قصبہ ہے، جہاں پہلے ہی سے غزہ سے نکلنے والے کئی لاکھ پناہ گزین پہنچے ہوئے ہیں۔

فلسطینی علاقے کے محکمہ صحت کے عہدے داروں نے بتایا ہےکہ اسرائیلی حملوں میں اضافے کے بعد بدھ کے روز ہزاروں فلسطینی خاندان اپنی جانیں بچانے کے لیے غزہ کو چھوڑ کر ان چند باقی ماندہ پناہ گاہوں کی طرف فرار ہو گئے جہاں پہلے ہی بہت بھیڑ ہے ۔

بدھ کے روز اسرائیلی فوج نے غزہ کے مرکزی اور جنوبی علاقوں میں حملے کیے جہاں اطلاعات کے مطابق درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دیر البلاح کی پناہ گاہوں میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ لوگ موجود ہیں اور نئے آنے والے سخت جاڑے میں سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں پر اپنے خیمے لگا رہے ہیں۔

فلسطینی پناہ گزین دیرالبلاح میں اپنے خیمے لگا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
فلسطینی پناہ گزین دیرالبلاح میں اپنے خیمے لگا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

پناہ گزین الاقصیٰ اسپتال کے گرد خیمے لگا رہے ہیں

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خیمے قصبے کے مرکزی اسپتال الاقصیٰ شہدا کے گرد لگائے گئے ہیں کیونکہ پناہ گزین یہ توقع کر رہے ہیں کہ اسپتال سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ اسرائیلی بمباری سے محفوظ رہے گا۔

غزہ میں اب کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ سے نکلنے والے لوگ دیر البلاح اور رفح کے ساتھ ساتھ جنوب میں واقع دیہی قصبوں کی طرف جا رہے ہیں جس سے وہاں بہت زیادہ بھیٹر ہو گئی ہے اور کھانے پینے کی قلت کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی اور علاج معالجے کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

غزہ کی 85 فی صد آبادی گھر بار چھوڑ چکی ہے

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی 85 فی صد کے لگ بھگ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر جاچکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی بمباری نے شہر کے زیادہ تر حصے کو ملبے کے ڈھیر اور کھنڈروں میں تبدیل کر دیا ہے۔

غزہ کی پٹی میں بمباری سے زیادہ تر مکان ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ فوٹو اے پی
غزہ کی پٹی میں بمباری سے زیادہ تر مکان ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ فوٹو اے پی

بظاہر مستقبل قریب میں اس جنگ کے ختم ہونے کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ غزہ میں اس کی فوجی مہم کئی مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی

اسرائیلی حکومت نے حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے اور 7 اکتوبر جیسی صورت حال پیدا ہونے کے تمام اسباب کا قلع قمع کرنے کے عزم کا اظہارکیا ہے۔ ملک کی تین رکنی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹز نے کہا ہے کہ لڑائی کے دائرے کو ضرورت کے مطابق اضافی مراکز اور اضافی محاذوں تک بڑھایا جائے گا۔

اسرائیل کے دیگر عہدے دار لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ کے خلاف فوجی کارروائیوں میں اضافے کی دھمکی دے چکے ہیں ۔ جب کہ سرحد کے آرپار دونوں فریقوں کے درمیان تقریباً روزانہ ہی فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

غزہ کی تاریخ کی سب سے زیادہ ہلاک خیز جنگ

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائی اس علاقے کی تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن مہم بن چکی ہے جس میں بدھ کے روز تک غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 21 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

زخمیوں کے لیے انتطامات نہ ہونے کے برابر ہیں،۔ فوٹو اے پی
زخمیوں کے لیے انتطامات نہ ہونے کے برابر ہیں،۔ فوٹو اے پی

جب کہ ہزاروں افراد زخمی ہیں اور ان کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کے انتظامات اور وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ انفیکشن کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے اکثر زخمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے پڑ سکتے ہیں۔

گنجان آباد البریج پناہ گزین کیمپ خالی کرنے کا حکم

اسرائیلی فوج نے منگل کی رات غزہ کے مرکزی حصے کے علاقے کے کیمپ البریج اور دیگر حصوں کو خالی کرنے کے احکامات جاری کیے۔ جنگ سے پہلے اس کیمپ میں 90 ہزار کے لگ بھگ فلسطینی رہ رہے تھے ۔جب کہ جنگ کے دنوں میں مزید 61 ہزار افراد نے یہاں آ کر پناہ لی۔

البریج پناہ گزین کیمپ سن 1948 میں اسرائیلی مملکت کے قیام کے وقت بنایا گیا تھا۔ یہاں موجود ڈیڑھ لاکھ فلسطینی پریشان ہیں کہ اتنے کم نوٹس پر وہ کہاں جائیں گے اور کیا کریں گے۔

خان یونس کا قصبہ بھی خطرے میں

زیادہ تر فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ غزہ کے بعد اسرائیلی فوج کا اگلا ہدف خان یونس اور اس کے آس پاس کے علاقے ہو سکتے ہیں اور اس قصبے کا مقدر بھی، جہاں بڑی تعداد میں پناہ گزیں اپنے خیمے گاڑے ہوئے ہیں، غزہ جیسا ہو سکتا ہے۔اس کے بعد پناہ گزینوں کی منزل کیا ہو گی ؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔

خان یونس کے قصبے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
خان یونس کے قصبے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اسرائیلی فوج نے بدھ کو بتایا کہ اس نے خان یونس میں اپنا ایک اور بریگیڈ تعینات کر دیا ہے جو آنے والے مشکل وقت کی جانب ایک اشارہ ہے۔

جنگ محدود کرنے کا مطالبہ مسترد

اسرائیل اپنے قریبی اتحادی امریکہ کے بار بار کے اس مطالبے کے باوجود اپنی فوجی مہم کو آگے بڑھا رہا ہے کہ وہ اپنی جنگ کا دائرہ پھیلانے کی بجائے اسے مخصوص اہداف پر مرکوز کر دے تاکہ شہری جانی نقصان میں کمی ہو سکے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ فوجیوں کے شہری علاقوں میں داخل ہونے سے پہلے حماس کی سرنگوں اور عسکری ڈھانچوں کو تباہ کرنے کے لیے بھاری بمباری کی ضرورت ہے تاکہ فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم کیا جا سکے۔

غزہ سے پناہ گزین محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں، لیکن غزہ کی پٹی میں اب کوئی بھی محفوظ علاقہ نہیں رہا۔فوٹو اے ایف پی
غزہ سے پناہ گزین محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں، لیکن غزہ کی پٹی میں اب کوئی بھی محفوظ علاقہ نہیں رہا۔فوٹو اے ایف پی

اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ اسے خوراک، پانی، ایندھن اور ضرورت کے دیگر بنیادی سامان کی شدت قلت کا سامنا ہے۔

اسرائیل کا حماس کے ہزاروں کارکن مارنے کا دعویٰ

اسرائیلی فوج فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار حماس کو قرار دیتی ہے۔ فوج کا کہنا ہے عسکری گروپ شہری علاقوں میں لوگوں کو ڈھال کی طرح استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عام شہری مارے جاتے ہیں۔ فوج کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اب تک کی کارروائیوں میں وہ حماس کے ہزاروں عسکری کارکنوں کو ہلاک کر چکی ہے تاہم اپنے دعوے کی تصدیق میں اس نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

(اس آرٹیکل کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG