رسائی کے لنکس

جنگ اور غربت سے تنگ کئی یمنی مرغیوں کی 'قربانی' کرنے پر مجبور


یمن میں خانہ جنگی اور بد امنی کے باعث بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کئی لوگ قربانی کے جانور خریدنے سے قاصر ہیں۔
یمن میں خانہ جنگی اور بد امنی کے باعث بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کئی لوگ قربانی کے جانور خریدنے سے قاصر ہیں۔

مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ پر جہاں بکرے، دنبے، گائے یا اونٹ ذبح کیے جاتے ہیں وہیں مسلم دنیا کے ملک یمن کا ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں کچھ لوگ عید پر مرغیوں کی 'قربابی' کر رہے ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان منگل کو عیدالاضحیٰ منا رہے ہیں جب کہ بعض ممالک میں بدھ کو عید منائی جائے گی۔

البتہ یمن کا ایک شہر تعِز ایسا بھی ہے جہاں کچھ لوگ عید الاضحیٰ پر مرغیوں کو ذبح کریں گے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق یمن میں حوثی باغیوں کے محاصرے میں موجود علاقے تعِز کے رہائشی فضل الصبی عید کے لیے دو مرغیاں لائے ہیں۔

ڈسپیچ رائڈر کے طور پر کام کرنے والے فضل کے چھ بچے ہیں اور وہ یومیہ صرف دو ڈالر کماتے ہیں۔ جس کے باعث عیدالاضحیٰ کی روایت بکرے، گائے یا اونٹ کی قربانی ان کی استطاعت سے باہر ہے۔

جنگ سے متاثرہ ملک یمن میں فضل واحد شخص نہیں جو اس صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ وہاں متعدد افراد انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اقوامِ متحدہ نے اسے دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ یمن میں جنگ کا آغاز 2014 میں وقت ہوا تھا، وہاں حکومت اور حوثی باغی آمنے سامنے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یمنی حکومت کو سعودی عرب کی قیادت میں موجود فورسز کی حمایت حاصل ہے جب کہ باغیوں کو ریاض کے حریف ایران کی حمایت ہے۔

اس وقت حوثی باغی ملک کے شمالی حصے کے علاقے بشمول دارالحکومت صنعا کا کنٹرول رکھتے ہیں۔

تعِز ​2014 میں شروع ہونے والے تنازع میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔

یمنی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں یمنی ریال کی گرتی قدر اور جانوروں کی بڑھتی قیمتوں کے باعث تعِز میں کئی افراد مویشی منڈیوں سے خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔

فضل الصبی نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ صورتِ حال بہت بری ہے۔ وہ قربانی کے لیے جانور کی خریداری کے لیے مارکیٹ گئے تھے لیکن ہر چیز بہت مہنگی ہے اور وہ کچھ نہیں خرید سکے۔

انہوں نے کہا کہ بھیڑ اور بکریاں ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ ریال (ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالر) کے درمیان فروخت ہو رہی تھیں۔ اس لیے میں نے عید کے دن کے لیے مرغی خرید لی۔ جو ان کے بقول 20 ہزار ریال میں ایک ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی نہیں بلکہ کپڑے بھی بہت مہنگے ہیں اور وہ انہیں خرید نہیں سکتے۔ زندگی بہت مشکل ہے۔

یمن میں جاری تنازع کے بعد سے رواں سال یمنی ریال حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں ڈالر کے مقابلے سات سال کی کم ترین سطح کو پہنچ چکا ہے۔ ان علاقوں میں ایک ڈالر ایک ہزار ریال سے زیادہ میں فروخت ہو رہا ہے۔

تعِز کے رہائشی محمد الشرابی کا کہنا تھا کہ قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ ان کے بقول ہم بکرے نہیں خرید سکتے کیوں کہ ان کی مالیت ڈیڑھ سے دو لاکھ ریال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال بڑھتے بحران اور ڈالر اور سعودی ریال کے مضبوط ہونے کی وجہ سے قربانی کے لیے جانور خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔

رہائشی کا کہنا تھا کہ 'ہم قابلِ رحم حالت میں ہیں۔'

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی خوراک کے پروگرام کے مطابق یمن میں پچاس لاکھ افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔

پروگرام کے مطابق خوراک کی قیمتیں جنگ سے پہلے کے مقابلے میں دو سو فی صد تک بڑھ چکی ہیں جب کہ 80 فی صد یمنی خوراک کی بین الاقوامی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔انسانی ہمدردی کی مختلف تنظیموں کے مطابق تنازع میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک جب کہ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔

اس خبر میں بیشتر معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG