رسائی کے لنکس

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد سوچ سمجھ کر لائے ہیں: حزبِ اختلاف


سابق صدر آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کو 172 اراکین سے زائد کی حمایت حاصل ہے کیوں کہ حکومت کے اپنے لوگ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کو 172 اراکین سے زائد کی حمایت حاصل ہے کیوں کہ حکومت کے اپنے لوگ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔

اسلام آباد میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سوچ سمجھ کر تحریک عدمِ اعتماد لائی ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد عوام کی خواہشات کے مطابق لا رہے ہیں اور اگر اب یہ تحریک نہ لاتے تو عوام نے ہمیں کبھی معاف نہیں کرنا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کو 172 اراکین سے زائد کی حمایت حاصل ہے کیوں کہ حکومت کے اپنے لوگ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کسی کے ذاتی مفاد کے لیے نہیں لائے بلکہ یہ قومی مفاد میں ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اب عمران خان کے مقبول نعرے نہیں چلیں گے۔ عوام اُن کی حقیقت جان چکی ہے اور اب ان کے دھوکے میں نہیں آئے گی۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اپوزیشن متفقہ فیصلہ کرے گی۔

حکومت کا ردِعمل

پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد میں کچھ نہیں ہو گا اور اپوزیشن کو شکست ہو گی۔

اُن کے بقول اپوزیشن نے ان تاریخوں کا انتخاب کیا ہے جب 22 اور 23 مارچ کو قومی اسمبلی ہال میں اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔

آصف زرداری کی جانب سے 172 سے زائد اراکین کی حمایت کے دعوے کے سوال پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آصف زرداری تو یہی کہیں گے۔ یہ چاہے جو بھی کر لیں عمران خان کہیں نہیں جا رہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ یہ حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر بنی ہے۔ لیکن اب سے گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ناکام ہو گی۔

قبل ازیں وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس بھی ہوا جس میں اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد سے متعلق قانونی نکات پر اٹارنی جنرل سے بھی مشاورت کی۔

قومی اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اور تحریکِ عدم اعتماد

قبل ازیں اپوزیشن رہنما نوید قمر ، رانا ثنا اللہ، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق, مریم اورنگزیب اور شازیہ مری نے تحریک عدم اعتماد اسپیکر چیمبر میں جمع کرائی۔

پاکستان کے نجی نیوز چینل 'جیو' کے مطابق وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں اپوزیشن کے 86 اراکینِ اسمبلی کے دستخط موجود ہیں۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اسلام آباد طلب کر لیا ہے جب کہ حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق)کے رہنما چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کیسے پیش ہوتی ہے؟

قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد منتخب وزیرِ اعظم کو عہدے سے ہٹانے کا آئینی طریقہ ہے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے کم از کم 20 فی صد اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے یہ مطلوبہ تعداد 68 بنتی ہے۔

اس مطلوبہ تعداد کے ساتھ پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک ہی پر رائے شماری ہوسکتی ہے۔

ارکانِ اسمبلی کو عدم اعتماد کی تحریک اور اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن جمع کرانا پڑتی ہے۔

ایک مرتبہ جب اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرادی جائے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 95(2) میں واضح درج ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور ووٹنگ کے لیے سات دن سے زیادہ تاخیر نہیں کی جاسکتی۔

تحریکِ عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری نہیں ہوتی بلکہ وزیرِ اعظم کے انتخاب کی طرح اس کے لیے بھی ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ارکان سب کے سامنے اپنی حمایت و مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔

آئین کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔

عثمان بزدار پر ترین گروپ کی تنقید اور حکمراں جماعت کے رابطے

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد ایسے موقع پر آئی ہے جب پیر کو تحریک انصاف کے اہم رہنما عبدالعلیم خان نے بھی عمران خان سے ناراض جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیم خان نے پنجاب کے وزیر اعلٰی عثمان بزادر پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں بیڈ گورننس سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ادھر جہانگیر ترین اور علیم خان کو منانے کے لیے تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما سرگرم ہو گئے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے وزیرِ دفاع پرویز خٹک کو ترین گروپ سے رابطے کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔

اس سے قبل گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری سمیت تحریکِ انصاف کے سینئر رہنماؤں نے اسلام آباد میں علیم خان سے ملاقات کی تھی۔

ادھر پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ وزیرِ اعلٰی سردار عثمان بزدار نے وزارتِ اعلٰی سے سبکدوش ہونے یا چوہدری پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلٰی بنانے سے متعلق پارٹی قیادت کو کوئی تجویز نہیں دی۔

خیال رہے کہ منگل مسلم لیگ (ق) کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری کیے گیے بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سردار عثمان بزدار نے علیم خان کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے کہا ہے کہ پنجاب کے کئی اراکینِ اسمبلی علیم خان سے خوش نہیں ہیں۔

البتہ پنجاب حکومت کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سردار عثمان بزدار نے علیم خان کے بارے میں پارٹی قیادت سے کوئی بات نہیں کی۔

XS
SM
MD
LG