رسائی کے لنکس

درد کی دوا پائی، درد لا دوا پایا


سرخ مرچیں درد کش دواؤں میں استعمال ہو سکتی ہیں
سرخ مرچیں درد کش دواؤں میں استعمال ہو سکتی ہیں

جس کسی نے کبھی سرجری کرائی ہے یا شدید زخم کھائے ہیں اسے معلوم ہے کہ اگر نشے کا ٹیکہ لگ جائے یا کوئی دردکش دوا حاصل ہو جائے تواس سے کتنا آرام ملتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ درد غائب کرنے کی یہ سب دوائیں دراصل درد کو غائب نہیں کرتیں بلکہ دماغ کو سُن کرتی ہیں تاکہ درد کا احساس نہ ہو۔

دماغ کو خصوصی اعصابی خلیوں کے ذریعے، جو تمام بدن میں پھیلے رہتے ہیں، درد کی اطلاع ملتی ہے۔ جیسے فرض کریں آپ نے گرم گرم پانی کو چھو لیا، یا آپ کی انگلی کھانا تیار کرتے ہوئے کٹ گئی، یا بہت زیادہ ورزش سے آپ تھک گئے، تو آپ کے خلیے متحرک ہو کر دماغ کو خبردار کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر درد ہو رہا ہے۔

یہاں تک تو سائنس دان جانتے ہیں لیکن اس سے پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ جب درد اٹھتا ہے تو دماغ کو بتانے والا حصہ متحرک کیسے ہوتا ہے۔

یونورسٹی آف ٹیکساس کے کینیتھ ہارگریِوز کہتے ہیں کہ سرخ مرچ سے انہیں بڑی پتے کی بات معلوم ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ اس کے اندر جو کڑوا سا مادہ ہے اور کیَپ سائی سِن کہلاتا ہے اور جسے تیز مصالحہ سمجھا جاتا ہے، وہ دراصل ایک ڈرگ یعنی دوا ہے۔ جب ہم مرچ کھاتے ہیں تو جلن سے محسوس ہوتی ہے۔ مرچ میں کیپ سائی سن جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی وہ تیز محسوس ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم نے لیبارٹری کے چوہوں پر تجربے کیے ہیں۔ چوہوں کی جِلد پر ایسے ہی آثار نمودار ہوئے جیسے ہم توقع کر رہے تھے۔

ہارگریو کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑی دریافت ہے جس سے درد کم کرنے کے ڈاکٹری طریقوں پر بڑا اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب درد کو روکنے کا علاج بھی تیار کر سکتے ہیں۔

منشّی ادویات کو درد وغیرہ دور کرنے کے لئے سب سے طاقت ور طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کا کام صرف یہ ہے کہ دماغ کے اس حصے کو سن کردیں جہاں درد محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر درد شروع ہونے سے پہلے لال مرچ جیسے خلیوں کو اعصاب تک پہنچنے سے روک دیا جائے تو درد دماغ تک پہنچے گا ہی نہیں، نہ ہی درد کا احساس ہوگا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس طریقے سے بنائی ہوئی ادویات ، منشی دواؤں کے مانند انسان کو اپنا عادی نہیں بنا لیں گی۔ اس سلسلے کا کام چند ہی ہفتوں میں شروع ہونے والا ہے۔

XS
SM
MD
LG