رسائی کے لنکس

11 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق


فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ (فائل فوٹو)
فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ (فائل فوٹو)

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 11 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ' آئی ایس پی آر کے مطابق یہ شدت پسند افراد فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور درسگاہوں پر حملوں میں ملوث تھے اور ان دہشت گردوں نے 60 افراد کو قتل کیا جن میں 36 عام شہری اور 24 کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے والےاداروں سے تھا۔

ان دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتو میں چلائے گئے جہاں سے انھیں سزائے موت سنائی گئی۔

بیان میں بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے سزائے موت پانے 11 مجرموں کے علاوہ تین کو عمر قید کی سزا بھی سنائی۔ ان سب کا تعلق کالعدم تنظیموں سے بتایا گیا ہے اور انہوں نے عدالت کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

جن مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی ان میں برہان الدین، شاہیر خان، گل فراز، محمد زیب، سلیم، عز ت خان، محمد عمران، یوسف خان، نادر خان، محمد عارف اللہ خان اور بخت محمد خان شامل ہیں۔

بیان کے مطابق برہان الدین، شاہیر خان اور گل فراز نے مردان میں ایک جنازے پر دہشت گرد حملہ کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا جس میں 30 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کے رکن عمران خان مہمند بھی شامل تھے۔

واضح رہے کہ فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھی 62 مختلف افراد کے قتل میں ملوث 10دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔ ان میں پاکستان کے معروف قوال امجد صابری کے قاتل بھی شامل تھے۔

دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں میں غیر فوجی افراد کے مقدمات چلانے کی منظوری دی گئی تھی اور گزشتہ سال اس مدت میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔

یہ عدالتیں اپنے قیام سے اب تک دو سو سے زائد مجرموں کو سزائے موت سنا چکی ہیں۔

انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں فوجی عدالتوں کے قیام کی آغاز ہی سے یہ کہہ کر مخالفت کرتی آئی ہیں کہ ان عدالتوں کی کارروائی ان کے بقول شفاف نہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کامران مرتضیٰ نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فوجی عدالتوں میں مقدمات کی شفاف کارروائی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔

تاہم حکومت اور فوج دونوں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران ملزمان کو ناصرف وکیل کی خدمات حاصل ہوتی ہیں بلکہ انہیں اپنی صفائی کا پورا موقع بھی دیا جاتا ہے جب کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف وہ ملکی اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق بھی رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG