رسائی کے لنکس

لنڈی کوتل میں کاروباری سرگرمیاں متاثر


ایک ریسٹورنٹ کے مالک عالم شیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب پہلے کی طرح چہل پہل نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے کاروبار پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں گزشتہ چند مہینوں سے چلی آ رہی کشیدگی اور سرحدی امور پر اختلافات کے باعث عمومی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح کے رابطوں میں فرق پڑا ہے، وہیں خاص طور پر تجارتی اور کاروباری شعبے سے وابستہ افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی قصبہ لنڈی کوتل دوطرفہ آمدورفت کی سرگرمیوں کے باعث ہر وقت گہما گہمی کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن اب یہاں پہلے جیسی رونق دیکھنے میں نہیں آتی۔

حال ہی میں سرحد کے آر پار نقل و حرکت کے لیے قانونی دستاویزات بشمول ویزا کا حصول لازمی قرار دیے جانے سے دو طرفہ آمدورفت متاثر ہوئی اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی دیکھی گئی ہے۔

مزید برآں ٹرانسپورٹ سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی ویزا کا حصول لازمی قرار دیے جانے کے بعد یہاں پر سامان سے لدے سرحد پار جانے والے ٹرکوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔

ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر سرحد کے آر پار جاتے ہیں اور ان کے ٹرکوں پر کام کرنے والے لوگ بدلتے رہتے ہیں لہذ اس صورتحال میں ان کے لیے ویزے لینا کسی صورت بھی سودمند نہیں اور ان کے لیے یہ پابندی ختم کی جائے۔

لنڈی کوتل میں ایک ریسٹورنٹ کے مالک عالم شیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب پہلے کی طرح چہل پہل نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے کاروبار پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔

"جب سرحد بند ہوئی تو اس کے بعد سے لنڈی کوتل کا کاروبار تقریباً ختم ہو گیا ہے۔۔۔سرحد یا گیٹ بند ہوتا ہے تو اُدھر بھی تکلیف ہوتی ہے اور اِدھر بھی تکلیف ہوتی ہے ہمارے کلچر ایک جیسے ہیں ہماری روایت ایک جیسی ہیں، میں گزارش کرتا ہوں کہ مسائل کو معاملات کو بات چیت کے ذریعے جلد حل کریں۔"

ایک سال کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کی یہ اہم سرحدی گزرگاہ متعدد بار بند کی جا چکی ہے جس کی وجہ دونوں حکومتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور سکیورٹی خدشات بتائے جاتی ہے۔

لنڈی کوتل ہی کے ایک دکاندار ہرپریت سنگھ کے خیالات بھی عالم شیر جیسے ہی تھے۔

"دونوں ہمسایہ ملک ہیں ہم چاہتے ہیں کہ بیٹھ کر معاہدہ کریں کہ لوگ آتے جاتے رہیں۔ ہمارے لوگ تو ادھر بھی ہیں ادھر بھی۔"

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سرحد پر آمدورفت کو قواعد و ضوابط میں لانے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہیں۔

XS
SM
MD
LG