رسائی کے لنکس

پاک بھارت رابطوں میں تیزی


پاک بھارت نے دو طرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات پر اتفاق کیا ہے
پاک بھارت نے دو طرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات پر اتفاق کیا ہے

’اسلام آباد ڈائیلاگ ‘ کے عنوان سے اس اجلاس کا اہتمام غیر سرکاری پاکستانی تنظیم جناح انسٹیٹیوٹ اور نئی دہلی کے Center for Dialogue and Reconciliation نے مشترکہ طور پر کیا۔ دونوں ملکوں کے وفود نے اُمید ظاہر کی ہے کہ اُن کی تیار کردہ سفارشات پر عمل کرنے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

رواں ہفتے پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر رابطوں میں تیز ی آئی ہے جس نے آنے والے دنوں میں جامع امن مذاکرات کے عمل کے لیے ماحول انتہائی دوستانہ اور سازگار ہونے کی اُمیدوں کو جنم دیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی روابط کے فروغ کے لیے سیکریٹری سطح کے دو روزہ مذاکرات اسلام آباد میں بدھ اور جمعرات کو ہوئے جن کے اختتام پر فریقین نے بتایا کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ بات چیت میں دو طرفہ تجارتی روابط بڑھانے کے لیے ٹھوس تجاویز اور اقدامات پر اتفاق کیا گیا ہے جس سے آنے والے دنوں میں بھارت اور پاکستان کے تاجروں کا فائدہ ہوگا۔ ان میں سب سے نمایاں پیش رفت ایک مشترکہ ورکنگ گروپ کی تشکیل ہے جو تاجروں کو ویزا کے حصول میں مشکلات اور دیگر رکاٹوں کو دور کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرے گا۔

تجارت کے موضوع پر ہونے والے سرکاری سطح پر ان مذاکرات کے ایک روز بعد اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کی غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے ایک مذاکرے کا اہتما م کیا گیا جس میں دونوں ملکوں کے سیاست دانوں، سابق سفارت کاروں، اراکین پارلیمان، صحافیوں اور دانشورں نے شرکت کی۔

اس دوروزہ بات چیت میں دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے اور خاص طور پر عوامی رابطوں میں اضافہ کرنے کے لیے اہم تجاویز کا تبادلہ کیا گیا۔ بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وفود نے اتفاق رائے سے ایک حتمی مسودے کی منظوری دی جس میں وہ سفارشات درج ہیں جن پر عمل کرنے سے پاکستان اور بھارت دہشت گردی، کشمیر کے تنازع کے حل، ذرائع ابلاغ اور تجارتی روابط کے فروغ سمیت دیگر متنازع امور پر پیش رفت کرسکتے ہیں۔

’دونوں ملکوں کے عوام دوستی کا فروغ چاہتے ہیں‘
’دونوں ملکوں کے عوام دوستی کا فروغ چاہتے ہیں‘

تاہم اجلاس کے شرکاء نے ان سفارشات کی تفصیلات سے اس مرحلے پر میڈیا کوآگاہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک قرارداد کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارت اور پاکستان کے وفود اپنی اپنی حکومت کو مشترکہ طور پر تیار کیا گیا یہ مسودہ پیش کرکے اس پر عمل درامد کرنے کی ضرورت پر زور دیں گے۔

’اسلام آباد ڈائیلاگ ‘ کے عنوان سے اس اجلاس کا اہتمام غیر سرکاری پاکستانی تنظیم جناح انسٹیٹیوٹ اور نئی دہلی کے Center for Dialogue and Reconciliation نے مشترکہ طور پر کیا۔ دونوں ملکوں کے وفود نے اُمید ظاہر کی ہے کہ اُن کی تیار کردہ سفارشات پر عمل کرنے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

بھارتی لوک سبھا کے رکن جے پانڈا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں میں ایسے حلقے موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ امن کو فروغ دیا جائے اور دوستی کا عمل آگے بڑھے۔ ’ ’دونوں ملکوں میں ایک احساس ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کا کوئی اور نعم البدل نہیں ہوسکتا ہے اور اگر ہم دوستانہ تعلقات کو بہتر کرتے ہیں تو یہ دونوں ملکوں کے لیے اچھا ہو گا۔ بہتر تعلقات کی وجہ سے بھارت میں اقتصادی ترقی مزید تیزی سے بڑھ سکتی ہے اور پاکستان کو بھی اس سے فائدہ ہوگا۔“

اُنھوں نے کہا کہ اجلاس میں ان کی طرف سے جو سفارشات مرتب کی گئی ہیں یہ عوامی جذبات کی ترجمان ہیں اور وہ پر امید ہیں کہ سرکاری سطح پر بھی اس کا اثر ہوگا۔

جے پانڈا نے کہا کہ وہ پہلی بار پاکستان آئے ہیں ” مجھے لگا کہ جو سفرایک گھنٹے میں طے ہونا چاہیے اس میں نو گھنٹے لگے کیونکہ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان براہ راست پروازیں نہیں ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اسے اپنے ہاں پارلیمنٹ میں اٹھاؤں ، رابطے بڑھانے میں ہم دونوں ملکوں کا فائدہ ہے اور اعتماد بڑھانے کے لیے جو فیصلے کیے جاچکے ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے۔“

طلعت مسعود
طلعت مسعود

اجلاس میں شریک پاکستانی تجزیہ نگار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ” پاکستان اور بھارت کے درمیان جو حل طلب معاملات ہیں مثلاً دہشت گردی کا مسئلہ، کشمیرکا تنازع، اقتصادی ترقی اور ہم آہنگی کا فروغ ان سب پر تبادلہ خیا ل کر کے سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے حکومت کے لیے کافی کام کیا ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے دونوں ملکوں کی حکومتیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور پھر میڈیااس پیغام کو دونوں ممالک میں پھیلا سکتا ہے“۔

طلعت مسعود نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے امن پسند حلقے جب دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے تو اُن کے بقول اس سے تعلقات میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG