رسائی کے لنکس

”امریکہ کے ساتھ وسیع البنیاد اور نتیجہ خیز مذاکرات چاہتے ہیں“


پاک امریکہ وزرائے خارجہ کی اسلام آباد میں ملاقات (فائل فوٹو)
پاک امریکہ وزرائے خارجہ کی اسلام آباد میں ملاقات (فائل فوٹو)

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس مرتبہ اُن کے ملک مذاکرات میں 10 نکاتی روڈ میپ پیش کرے گا جس سے ا سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے ایجنڈے کو وسعت دینے میں مدد ملے گی ۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ امریکی مذاکرات کاروں کو یہ تجویز بھی دیں گے کہ دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ کے مابین سال میں ایک مرتبہ ملاقات ہونی چاہیئے

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس توقع کا اظہا ر کیا ہے کہ آئندہ ہفتے واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اسٹریٹیجک مذاکرات ماضی میں ایسی نوعیت کی ہونے والی بات چیت سے مختلف اور بامعنی ہوں گے ۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دیرپا طویل المدتی تعلقات اور باہمی شراکت داری کوفروغ دینے کے لیے اس مرتبہ ا سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے اجلاس میں اُن کا ملک بھرپور تیاری کے ساتھ شرکت کرے گا اور مذاکرات کی میز پر وہ تمام مسائل رکھے گا جنہیں حل کرنے میں امریکہ پاکستان کی مدد کر سکتا ہے ۔

اُنھوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ پاکستان کی حکومت ، فوج اور ملک سیاسی جماعتوں میں اس بات پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ برابری اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات ہونے چاہیئں۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے اور ہر طرح کی وہ قربانی دی ہے جو اب تک کسی اور ملک نے نہیں دی جس کا بین الاقوامی برادری نے بھی اعتراف کیا ہے۔ اُن کے بقول اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اپنے وعدے نبھاتے ہوئے پاکستان کی اقتصادی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون میں اضافہ کرے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ا سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے موضوع پر 2006 ء سے اب تک بات چیت کے تین ادوار ہو چکے ہیں لیکن یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے کیوں کہ ان کا ایجنڈا وسیع البنیاد نہیں تھااور اُن کا محورسکیورٹی کے معاملات تک محدود تھا۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس مرتبہ اُن کے ملک مذاکرات میں 10 نکاتی روڈ میپ پیش کرے گا جس سے ا سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے ایجنڈے کو وسعت دینے میں مدد ملے گی ۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ امریکی مذاکرات کاروں کو یہ تجویز بھی دیں گے کہ دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ کے مابین سال میں ایک مرتبہ ملاقات ہونی چاہیئے جب کہ پاکستانی خارجہ سیکرٹری امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک کے ساتھ سال میں دو ملاقاتیں کریں جن میں اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں ہونے والی پیش رفت کا جائز ہ لیا جائے ۔

صدر زرداری،وزیراعظم گیلانی اور فوج کے سربراہ جنرل کیانی کے درمیان ملاقات (فائل فوٹو)
صدر زرداری،وزیراعظم گیلانی اور فوج کے سربراہ جنرل کیانی کے درمیان ملاقات (فائل فوٹو)

خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما اور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن باربار وسیع تر پاک امریکی تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے آئے ہیں جو سلامتی کے معاملات سے بڑھ کر ہوں گے۔

مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ علاقائی سلامتی کے حصول کی کوششیں اُس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہوں گی جب تک بلوچستان میں بھارتی کی مبینہ مداخلت کو روکنے کے لیے امریکی انتظامیہ اپنا کردار ادا نہیں کرتی۔

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں مسائل کے حل کا راستہ کشمیر کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے اس لیے پاکستانی وفد کو امریکی عہدیداروں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ سلامتی کے مسئلے کو صرف افغانستان تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔

مشاہد حسین نے بتایا کہ اُنھوں نے حال ہی پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی عہدیداروں سے ملاقاتوں میں یہ تجویز بھی دی ہے کہ قبائلی علاقوں میں اقتصادی ترقی کے لیے مالی امداد دینے کے اپنے وعدے کوامریکہ پورا کرے۔ مزید براں اُنھوں نے کہا کہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم ازکم 10 ہزارطلباو طالبات کو خلیج کے ممالک میں تعلیم دلوانے کے لیے وظائف کا انتظام بھی کرے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیرکا کہنا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں قیام امن کی امریکی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو ہوسکتیں اور امریکہ کو بھی اس کا ادراک ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ سالانہ60 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کو دی جانے والی امداد بہت قلیل ہے۔

ایاز امیر کا ماننا ہے کہ پچھلے آٹھ سالوں میں ماضی کے حکمرانوں نے مئوثر انداز میں پاکستان کے اس مئوقف کو پیش نہیں کیا لہذا دیکھنا یہ کہ اس مرتبہ پاک امریکہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں اس حوالے سے کیاپیش رفت ہوگی۔

XS
SM
MD
LG