رسائی کے لنکس

مذاکراتی ٹیم وزیر اعظم کا استعفیٰ لے کر آئے، مولانا فضل الرحمن


جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں آزادی مارچ کے اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں آزادی مارچ کے اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں۔

پاکستان میں اپوزیشن کا آزادی مارچ جاری ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی کو کہہ دیا کہ آنا ہے تو وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر آنا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات ہوئی ہے جس میں وزیراعظم نے مذاکرات جاری رکھنے کا کہا البتہ استعفیٰ کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔

آزادی مارچ گزشتہ آٹھ روز سے اسلام آباد میں جاری ہے جہاں ہر شام ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایڈہاک ازم پر حکومت اور ملک نہیں چلتے۔ جب سے اسمبلیاں بنی ہیں قانون سازی نہیں ہوئی۔ ان کا بنایا ہوا صدر آرڈی نینس جاری کرتا ہے اور ایک ہی دن میں پندرہ بیس آرڈی ننس عجلت میں پاس کرائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آخر ملک کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے۔ ملک کو ایسے لوگوں سے فارغ کرو۔ یہ لوگ پاکستان کو کہاں لے جا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج نے امن کے لیے قربانیاں دیں۔ لیکن کیا ہماری قربانیاں اس لیے تھیں کہ ایسے لوگ حکمرانی کریں گے؟ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کیوں قبول نہیں کی جا رہی۔ دھاندلی سے آنے والوں کو حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ ہم آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔

سربراہ جے یو آئی(ف) کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے منی لانڈرنگ کا شور مچایا گیا اور آج چیئرمین ایف بی آر نے کہہ دیا کوئی منی لانڈرنگ نہیں ہوئی۔ ان کی پوری سیاست مخالفین کو چور کہنے پر قائم ہے۔ اس حکومت کو ہم ایک قبضہ گروپ سمجھتے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کو واضح کہا ہے کہ اب آنا تو وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر آنا۔

انہوں نے وزیراعظم کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں تقریر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک تقریر سے نہیں چلتا۔ مشہور کیا گیا کہ تقریر اچھی کی۔ لیکن اگلے روز ہی ووٹنگ میں واضح ہوا کہ ہم ان ممالک کے ووٹ بھی حاصل نہیں کر پائے جو ہمیشہ ہمیں ووٹ دیتے تھے۔

وزیراعظم کی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات

وزیراعظم عمران خان نے مذاکراتی کمیٹی کو اپوزیشن سے مذاکرات جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے استعفیٰ کا مطالبہ غیرآئینی ہے۔

عمران خان سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات میں وزیرداخلہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور بابر اعوان بھی شریک تھے۔ وزیر داخلہ نے وزیراعظم کو اب تک کی حکومتی حکمت عملی اور انتظامی اقدامات سے آگاہ کیا۔

آزادی مارچ کا پس منظر

پاکستان میں اپوزیشن کا آزادی مارچ 31 اکتوبر کی شام اسلام آباد پہنچا جس کے بعد سے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن کے گراؤنڈ میں دھرنا جاری ہے۔ اس دھرنے میں اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے کارکن موجود ہیں لیکن زیادہ بڑی تعداد جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی ہے جو اسلام آباد میں سردی اور بارش کے باوجود اس دھرنے میں شریک ہیں۔

حکومت نے آزادی مارچ کے لیڈورں سے مذاکرات کے لیے وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے، لیکن اب تک مذاکرات میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ اپوزیشن کا پہلا نکتہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ہے جس پر حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ اس پر بات ہی نہیں ہو سکتی۔

اس سے قبل آزادی مارچ کے اسلام آباد میں آمد کے بعد دھرنے کے مقام سے متعلق بات چیت کامیاب رہی تھی اور رہبر کمیٹی نے ڈی چوک کی بجائے پشاور موڑ کے قریب ایچ نائن گراؤنڈ پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

آزادی مارچ کی بڑی جماعت اب بھی جمعیت علمائے اسلام ہے، جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ سال کے عام انتخابات کو جعلی اور مینڈیٹ پر ڈاکہ قرار دے کر انہیں مسترد کر دیا ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے

مولانا فضل الرحمن فوج کی نگرانی کے بغیر انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس معاملے پر فوجی ترجمان بھی بیانات جاری کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG