رسائی کے لنکس

پاکستان، افغانستان اور ایران کے مشترکہ عزم کا اظہار خوش آئند ہے: پاکستانی تجزیہ کار


پاکستان، افغانستان اور ایران کے مشترکہ عزم کا اظہار خوش آئند ہے: پاکستانی تجزیہ کار
پاکستان، افغانستان اور ایران کے مشترکہ عزم کا اظہار خوش آئند ہے: پاکستانی تجزیہ کار


پاکستانی مبصرین پاکستان، ایران اور افغانستان کی طرف سے علاقائی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ عزم کا خیر مقدم کر رہے ہیں، اور اُن کا کہنا ہے کہ اِس کے نتیجے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے خطرات سے نمٹنے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔

ہفتے کو وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل جمشید ایاز نے کہا کہ اِس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کو بھی مؤثر کردار ادا کرنا چاہیئے تاکہ تینوں علاقائی ملکوں کی کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔

جمشید ایاز نے اِسے‘اچھا شگون’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بشمول امریکہ سب طرفین کو اِس کا خیر مقدم کرنا چاہیئے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ اس خطے میں امن اور خوش حالی تمام فریقین کے مفاد میں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اب پاکستان، افغانستان اور ایران نے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس عزم کو عملی جامہ پہنایا جائے، اور امریکہ جو کہ سُپر پاور ہے وہ اپنا کردار ادا کرے۔

جنرل (ر) جمشید ایاز نے کہا کہ امریکی صدر تبدیلی کی بات کرتے رہے ہیں۔ ‘تبدیلی مثبت امر ہے، تبدیلی منفی نہیں ہوا کرتی۔ چونکہ اوباما صاحب تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اُنھیں اِس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیئے کہ علاقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے، اور یہ کہ معاشی اور سیاسی نقطہٴ نظر سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔’

سابق سفارت کار، اکرم ذکی کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کی طرف سے ایک ساتھ مل کر کام کرنے سے وہ مقاصد حاصل ہونے کی توقع ہے جو ابھی تک حاصل نہیں ہو پائے۔

اکرم ذکی نے کہا کہ پاکستان پوری طرح تعاون کر رہا ہے اور دو طرفہ سطح پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ قریب آنے کی کوششیں کی ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے صدرِ پاکستان کے عہدہ سنبھالنے کے موقعے پر صدر حامد کرزئی کو، اور افغانستان کے صدر کے عہدہٴ صدارت سنبھالنے کے موقع پر صدر زرداری کو ایک دوسرے کے دارالحکومت میں مدعو کیے جانے اور شرکت کا حوالہ دیا۔

‘ہم اِس بات پر بڑے خوش ہیں کہ امریکہ نے کم از کم ارادہ ظاہر کر دیا ہے کہ اخراج شروع کرے گا۔ یہ نہیں کہا کہ نکل جائیں گے لیکن اُس کی طرف پہلا قدم ہے۔ لیکن ابھی جو فوجوں کی تعداد بڑھی ہے اُس سے خطرہ ہے کہ ہمارے ملک کے حالات اور بگڑ سکتے ہیں کیونکہ وہاں پر جتنی زیادہ کارروائی ہو گی اُس کا پاکستان پر بُرا اثر پڑے گا۔ ایران کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اور پاکستان کو بھی دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تینوں ملکوں کا تعاون ضروری ہے۔

اکرم ذکی کے بقول اِس میں صرف ایک منفی بات ہے اور وہ یہ کہ افغانستان کی حکومت خودمختار نہیں ہے۔ وہاں جب تک کہ نیٹو کی اور امریکہ کی فوجیں موجود ہیں، دراصل بنیادی فیصلے اُنہی کی مرضی سے ہوتے ہیں۔‘ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اپنی طرف سے کوشش کرے کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ ’

XS
SM
MD
LG