رسائی کے لنکس

سلامتی کونسل: پاک افغان سفیروں کے درمیان الزامات کا تبادلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستانی سفیر نے متنبہ کیا کہ جو فریق افغانستان کے مسئلہ کا حل عسکری طاقت کے ذریعے تلاش کر رہے ہیں اُنھیں اس کے نتائج کے بارے میں بھی غور کی ضرورت ہے۔

اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے سفیر نے پاکستان پر اپنے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے جسے پاکستان نے مسترد کردیا ہے۔

سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتِ حال پر سہ ماہی مکالمے کے دوران عالمی ادارے میں افغانستان کے سفیر محمود سیکال نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ممالک کے معاملات میں مسلسل مداخلت کا مرتکب ہورہا ہے اور اگر اس نے یہ روش ترک نہ کی تو ان کا ملک یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں اٹھائے گا۔

بحث کے دوران اپنے خطاب میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی نے افغان سفیر کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں قیامِ امن کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستانی سفیر نے کہا کہ عسکری طاقت کے استعمال سے افغانستان میں دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں۔

پاکستانی سفیر نے افغان ہم منصب کی طرف سے پاکستان پر عائد کیے جانے والے الزامات کو بھی بلاجواز اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان حکام اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر عائد نہ کریں۔

افغان سفیر محمود سیکال نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ صدر اشرف غنی واضح کرچکے ہیں کہ اگر پاکستان نے چار فریقی گروپ – جس میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکہ اور چین بھی شامل ہیں – میں ہونے والے اتفاقِ رائے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو افغانستان یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لے جانے پر مجبور ہوگا۔

اپنے خطاب میں افغان سفیر کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری معاہدوں اور 'ایف-16' طیاروں کے سودوں کی نہیں بلکہ نیت کی درستگی اور موثر کارروائی کی ضرورت ہے۔

افغان سفیر کا بظاہر اشارہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان مجوزہ عسکری تعاون پر تھا جس کے تحت دونوں حکومتیں حالیہ مہینوں کے دوران جوہری تعاون اور ایف-16 طیاروں سمیت دیگر ہتھیاروں کی فروخت پر بات چیت کرتی رہی ہیں۔

سلامتی کونسل سے اپنے خطاب میں افغان سفیر نے الزام عائد کیا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور جیسے بدنام زمانہ شدت پسندوں کی پاکستان میں موجودگی اور پاکستان کی حدود میں ان کی ہلاکت سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان دیگر ممالک کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان سے طالبان کے ساتھ تعاون پر پابندی اور پڑوسی ملکوں کی خود مختاری میں عدم مداخلت سے متعلق اپنی قراردادوں پرعمل درآمد کرائے۔

افغان سفیر کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اپنے خطاب میں ملیحہ لودھی نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے امن پر یقین اور افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے متعدد بار کی گئی درخواستوں پر ہی پاکستان افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان جون 2015 میں پہلے براہ راست مذاکرات کے لیے سہولت کاری پر آمادہ ہوا تھا۔

اُنھوں نے افغان مصالحتی عمل کے لیے افغانستان، امریکہ، چین اور پاکستان پر مشتمل چار ملکی گروپ کی کوششوں کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ بین الاقوامی برداری نے اس گروپ کی تشکیل اور کوششوں کو سراہا۔

پاکستانی سفیر نے متنبہ کیا کہ جو فریق افغانستان کے مسئلہ کا حل عسکری طاقت کے ذریعے تلاش کر رہے ہیں اُنھیں اس کے نتائج کے بارے میں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک عرصے سے یہ تجویز کرتا رہا ہے کہ کئی دہائیوں کی جنگ اور افغانوں کی مشکلات کا خاتمہ تنازع کے سیاسی حل ہی سے ممکن ہے۔

ملیحہ لودھی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ امریکی ڈرون حملے کی مذمت بھی کی اور کہا کہ یہ کارروائی نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ یہ پاکستان کی سالمیت، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان کی سفیر کا کہنا تھا کہ 21 مئی کو ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کے مارے جانے سے فغانستان میں امن و مصالحت کی کوششیں مجروح ہوئیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ڈرون حملے سے نہ صرف افغان امن عمل کو دھچکا لگا بلکہ اس سے افغان تنازع کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔

اکیس مئی کو بلوچستان میں کیے گئے اس ڈرون حملے کے بعد پاکستان کی حکومت نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کو طلب کر کے اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

اس ڈورن حملے کی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے طرف سے شدید مذمت کی گئی تھی اور حکومتِ پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کارروائی سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عسکری قوت کا استعمال گزشتہ 15 برسوں میں افغانستان میں استحکام لانے میں ناکام رہا ہے اور فوجی طاقت کا مسلسل استعمال افغانستان اور خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کرے گا۔

اُنھوں نے افغان حکومت اور افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی حدود میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔

اس سے قبل سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں افغان سفیر مسعود سیکال نے پاکستان کی جانب سے افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی جانب سے فوجی تنصیبات کی تعمیر، افغان شہریوں سے بدسلوکی اور افغانستان کے ساتھ تجارت اور سفرکو مشکل بنانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ تین ماہ کے دوران سیکڑوں بار افغانستان کے سرحدی علاقوں پر گولہ باری کی ہے جس سے افغان شہریوں کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے حال ہی میں طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر پاکستان کی جانب سے تعمیرات کی کوشش کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مسلح تصادم کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس کے نتیجے میں بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

اپنے خطاب میں عالمی ادارے میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ سرحد کی موثر نگرانی پاکستان کا حق ہے اور اُن کا ملک اپنے سرحدی علاقوں میں اس ضمن میں ضروری کارروائی کرے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ماہ کے وسط میں اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا جب پاکستان نے طورخم کی مرکزی سرحدی گزرگاہ پر گیٹ کی تعمیر شروع کی تھی۔ افغان حکام نے تعمیراتی کام کی مزاحمت کی تھی جس کے بعد دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا تھا جس میں دونوں جانب کا جانی نقصان ہوا تھا۔

فائرنگ اور گولہ باری کے باعث سرحد ایک ہفتے تک بند رہی تھی جسے بعد ازاں اعلیٰ سطحی سفارتی رابطوں کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔ لیکن فائر بندی کے باوجود دونوں حکومتوں کے درمیان سرحد پر گیٹ کی تعمیر پر اختلافات بدستور برقرار ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ سرحد کے آر پار نقل و حرکت کو منظم اور قواعد وضوابط میں لانے کے لیے سرحد پر اپنی جانب گیٹ تعمیر کر رہا ہے اور سرحد پر نقل و حرکت کی موثر نگرانی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

گزشتہ ماہ بھی یہ سرحد دونوں جانب کی سکیورٹی فورسز میں تناو کے باعث چار روز کے لیے بند رہی تھی جس سے مسافروں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

XS
SM
MD
LG