رسائی کے لنکس

مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں: چار ملکی اجلاس


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

چار ملکی گروپ نے 19 اپریل کو کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حملے کرنے والوں کو اس کے نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیئے۔

افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چار ملکی گروپ کا پانچواں اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں ہوا، جس میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ چار ملکی گروپ نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ تشدد سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا اور امن مذاکرات ہی اس مسئلے کے حل کا واحد راستہ ہیں۔

اس سلسلے میں مذاکرات میں شریک تمام ممالک نے اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

چار ملکی گروپ نے 19 اپریل کو کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حملے کرنے والوں کو اس کے نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیئے۔

اجلاس میں افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کی کوششوں کے لیے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔ بیان کے مطابق چار ملکی گروپ کا آئندہ اجلاس اتفاق رائے سے طے کیا جائے گا۔

اس اجلاس میں پاکستان کے وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری جب کہ افغان وفد کی سربراہی اسلام آباد میں افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال نے کی۔

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن اور افغانستان کے لیے چین کے خصوصی ایلچی ڈینگ شی جن، اس اجلاس میں اپنے اپنے ممالک کے وفود کے ساتھ شریک ہوئے۔

ماضی میں چار ملکی اجلاس میں افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے پاکستان آتے رہے تاہم اس مرتبہ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق چار ملکی اجلاس سے قبل پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندوں رچرڈ اولسن نے افغان سفیر عمر زخیلوال سے ملاقات کی، جس میں مشترکہ موقف پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال کے موقف پر افغانستان کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے جب کہ چین پاکستان کے اس موقف کا حامی ہے کہ عسکری کارروائی مسئلے کا حل نہیں۔

اُدھر خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق افغانستان نے سابق افغان وزیراعظم گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

افغان اُمور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان میں امن کا حصول آسان کام نہیں۔

’’(اگر) کسی کو یہ اُمید تھی کہ جلدی یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو میرے خیال میں یہ اُن کی خوش فہمی تھی۔ دیکھیں چار اجلاس پہلے ہوئے اور پانچواں اجلاس تین مہینے کے بعد ہوا۔ کئی رکاوٹیں سامنے آئیں، ابھی بھی رکاوٹیں دور نہیں ہوئیں۔‘‘

رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ یہ لگتا ہے کہ چار ملکی گروپ امن کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔

’’افغانستان کا تو ایک ہی مطالبہ ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ وہ کہہ رہے کہ طالبان کے خلاف پاکستان کارروائی کرے ۔۔۔ پاکستان پہلے تو کارروائی نہیں کرے گا۔ اگر کوئی بڑی مجبوری ہوئی اور کوئی کارروائی کرنی پڑے گی تو وہ کارروائی موثر نہیں ہو گی۔‘‘

فروری میں چار ملکی گروپ کے چوتھے اجلاس کے بعد اس اُمید کا اظہار کیا گیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات مارچ کے اوائل میں پاکستان میں ہو سکتے ہیں لیکن ایسا نا ہو سکا۔

طالبان نے مذاکرات میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے بعض پیشگی شرائط عائد کی تھیں جب کہ اُنھوں نے افغانستان میں اپنی کارروائیاں بھی تیز کر دیں۔

گزشتہ ماہ کابل میں انٹیلی جنس ادارے کے ایک دفتر پر مہلک حملے کے بعد افغانستان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر تنقید میں اضافہ ہوا۔

تاہم پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ افغان امن کی کوششوں میں خلوص نیت سے کردار ادا کرتے رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG