رسائی کے لنکس

قتل کے مجرم کو 23 سال بعد پھانسی دے دی گئی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

آفتاب بہادر مسیح کے وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جرم کے وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔

پاکستان میں عدالت سے سزائے موت پانے والے ایک مجرم کی پھانسی پر 23 سال بعد عمل درآمد کر دیا گیا۔

مجرم کے وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جرم کے وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔

آفتاب بہادر مسیح کو 1992ء میں لاہور میں ایک خاتون سمیت تین افراد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی جس پر بدھ کی صبح کوٹ لکھپت جیل میں عملدرآمد کیا گیا۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’رپریوو‘ نے اپنے ایک بیان میں اس پھانسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے نظام انصاف کا "شرمناک دن" قرار دیا۔

وکلاء دفاع کا موقف ہے کہ جن دو گواہوں کے بیان پر آفتاب کو سزائے موت سنائی گئی وہ بھی بعد میں اپنے بیان سے یہ کہہ کر منحرف ہو گئے تھے کہ ان سے یہ بیان دباؤ کے ذریعے لیا گیا جب کہ آفتاب پر بھی مبینہ طور پر تشدد کے ذریعے اقبال جرم کروایا گیا۔

پاکستان میں نابالغ مجرم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی ہے لیکن 2000ء سے پہلے یہ قانون موجود نہیں تھا اور آفتاب کو سزائے موت 1992ء میں سنائی گئی تھی۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق منگل کو آفتاب مسیح کے رشتے داروں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے لاہور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا جس میں پھانسی روکنے کے مطالبے کو دہرایا گیا۔

مزید برآں رومن کیتھولک بشپ آف کراچی جوزف کوؤٹس نے بھی پھانسی کو ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی جب کہ برطانیہ میں سابق بشپ آف روچسٹر نے بھی اس معاملے پر رحم کی درخواست کی تھی۔

انھوں نے اپنے خط میں کہا تھا کہ "آفتاب 23 سال تک جیل میں رہا جو کہ عمر قید سے بھی زائد عرصہ ہے، اور ایک ایسے جرم کے لیے جس میں گواہی دینے والے دو افراد بھی کہتے ہیں وہ بے گناہ ہے۔ ایسی صورتحال میں آفتاب کو پھانسی دینا سنگین ناانصافی ہو گی۔"

خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" نے جیل کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ مجرم کو صبح ساڑھے چار بجے پھانسی دی گئی اور ان کے بقول " پھانسی سے قبل وہ (آفتاب) روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔"

ایک روز قبل ہی سزائے موت کے ایک اور مجرم شفقت حسین کی پھانسی چوتھی بار ملتوی کی گئی کیونکہ اس کی عمر کے معاملے کو لے کر بھی پاکستان کے نظام قانون پر کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

نو جون کو پھانسی کے لیے اس کے جاری کیے گئے ڈیتھ وارنٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جسے بدھ کو عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔

مجرم کے وکلاء کا موقف ہے کہ 2001ء میں جرم کے وقت اس کی عمر چودہ سال کے لگ بھگ تھی اور اس سے بھی تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کروایا گیا۔

دریں اثناء بدھ کو ہی پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے دو مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور یورپی یونین یہ مطالبہ کرتی آرہی ہیں کہ پاکستان اپنے ہاں موت کی سزا کو ختم کرے اور پھانسیوں کے عمل کو روکے۔

لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔

گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہلاکت خیز حملے کے تناظر میں وزیراعظم نواز شریف نے پھانسیوں پر چھ سال سے عائد پابندی ختم کر دی تھی جس کے بعد اب تک لگ بھگ 150 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG