رسائی کے لنکس

ایجنسیاں ٹیلی فون ٹیپ کر سکیں گی، قانون منظور


منظور ہونے والے ’فیئر ٹرائل‘ قانون کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر تحقیقاتی ادارے نہ صرف عدالت کی اجازت سے کسی بھی مشتبہ شخص کے مواصلاتی آلات کی نگرانی کر سکیں گے، بلکہ اس دوران حاصل ہونے والی معلومات کو بطور شواہد عدالت میں بھی پیش کیا جاسکے گا

پاکستان کی قومی اسمبلی نے خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ افراد کے ٹیلی فون، ای میلز اور ایس ایم ایس کی نگرانی کے اختیار سے متعلق مسودہ قانون متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے قانون فاروق ایچ نائیک نے ’’انوسٹگیشن فار فئیر ٹرائل‘‘ نامی یہ مسودہ قانون جمعرات کو اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جاری دہشت گردی کے پیش نظر یہ بل بہت ضروری ہے کیونکہ متعلقہ قوانین کی غیر موجودگی کی وجہ سے دہشت گرد سزاؤوں سے بچ جاتے ہیں۔

اس قانون کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر تحقیقاتی ادارے نہ صرف عدالت کی اجازت سے کسی بھی مشتبہ شخص کے مواصلاتی آلات کی نگرانی کر سکیں گے بلکہ اس دوران حاصل ہونے والی معلومات کو اب بطور شواہد عدالت میں بھی پیش کر سکیں گے۔

قانون میں کہا گیا ہے کہ ان اختیارات کے غلط استعمال کرنے پر متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ثابت ہونے پر تین سال کی قید بھی ہوسکتی ہے۔

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے قانون کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا مقصد دہشت گردی کو پاکستان سے ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کی منظوری سے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔

وزیر اعظم نے اس تاثر کو رد کیا کہ یہ قانون عام شہریوں کے خلاف ہے۔ ’’یہ (قانون) کسی عام شہری کے خلاف نہیں ہے۔ یہ عام شہری کی حفاظت کے لیے ہے۔ ہمارے اپنے بچوں کو ان دہشت گردوں کے چنگل سے بچانے کے لیے ہے جو کہ انہیں موت کی وادی میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔‘‘

اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قوانین کا نہ ہونا مسئلہ نہیں بلکہ ان کا غلط استعمال یا استعمال نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ اس ’’حساس‘‘ قانون کو غلط استعمال کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کو ہمیشہ یقینی بنائیں ۔

انہوں نے کہا یہ قانون مثالی نہیں اس لیے اس کے نفاذ کے ایک سال بعد اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور اس کے نقصانات یا خامیوں کا جائزہ لیا جائے۔

’’یہ قانون اس لیے نہیں بنایا گیا کہ انٹلیجنس ایجنسیوں کو اگر کوئی حزب اختلاف کا رکن، سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی یا عام شخص پسند نہیں اس کی نگرانی ہو۔ اس کا مقصد اس (نگرانی) کے عمل کو ایک ضابطے کے تحت کیا جائے۔ اس کی دیکھ بھال کا موثر نظام ہونا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں تحقیقاتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس خفیہ ذرائع سے شواہد حاصل کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کی نگرانی کی جاتی ہے تو وہ غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔ جس بناء پر ماہرین کے مطابق شدت پسند عدالتوں سے شواہد کی کمی کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں۔

اب یہ مسودہ قانون ایوان بالا یعنی سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت کو بھیجا جائے گا جن کے دستخط سے یہ قانون فوری طور پر ملک بھر میں نافذ العمل ہوگا۔
XS
SM
MD
LG