رسائی کے لنکس

انسداد دہشت گردی کے طریقہ کار پر ابہام برقرار


سینئیر تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ اور عمران خان کی جماعت کا اس سلسلے میں کانفرنس بلانا حالیہ جان لیوا حملوں کے بعد حکومت کو عسکریت پسندوں کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کرنے سے روکنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے۔

حالیہ دنوں پاکستان کے شمال مغرب میں مہلک حملوں کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق طریقہ کار پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے اور حکومت کو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دینے والی چند جماعتوں کی جانب سے اب اس پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

جبکہ دوسری جانب ملک میں دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء اور ان کے مدارس کے منتظمین نے اپنے ایک اجلاس میں حکومت اور عسکریت پسندوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کردیا ہے اور خیبرپختوخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے بھی اسی سلسلے میں رواں ہفتے مذہبی شخصیات اور دانشوروں کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وفاق مدارس العربیہ کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے ان کے بقول ہمدردانہ مطالبے کا مقصد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مجوزہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔

’’جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے ہم ہی نے خود کش بم حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا اور ہمیشہ شدت پسندی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کی ہے۔ ہم نے امن اور رواداری کی بات کی ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ کا خاتمہ بھی ڈائیلاگ ہوتا ہے۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون ساز عمر اسد شدت پسندی کی جاری لہر کے باوجود بھی مذاکرات کو قیام امن کے لیے اس وقت واحد راستہ گردانتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’درجنوں لوگ اگر پہلی مرتبہ مرے ہوتے تو یہ بڑا مستند سوال تھا (کہ کیا اب بھی مذاکرات کی کوئی گنجائش ہے؟) لیکن ہزاروں لوگ مرنے کے بعد تو کل جماعتی کانفرنس نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ میرا صرف یہ نقطہ ہے کہ مذاکرات کے فیصلے سے پہلے اور بعد کی صورتحال میں کوئی فرق نہیں۔ پہلے بھی یہی ہورہا تھا اب بھی یہ ہورہا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے لیے ان کا دفتر کھولنے کی بھی تجویز دے چکے ہیں۔

شدت پسندوں کے مہلک حملوں کے ردعمل میں وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے وقت یہ کہا تھا کہ ان حملوں کے بعد شدت پسندوں سے مذاکرات میں پیش رفت مشکل ہوگئی ہے۔ تاہم واپسی پر مقامی اخبارات کے مطابق انہوں نے لندن میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پشاور میں ہونے والے واقعات میں بیرونی قوتین ملوث ہوسکتی ہیں۔

سینئیر تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ اور عمران خان کی جماعت کا اس سلسلے میں کانفرنس بلانا حالیہ جان لیوا حملوں کے بعد حکومت کو عسکریت پسندوں کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کرنے سے روکنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے۔

’’اگر حکومت کہتی ہے اور ہمیں نہیں بتاتی کہ کون سے وہ غیرملکی عناصر ہیں تو یہ سب طالبان کے مفاد میں جائے گا اور بنیادی طور پر آپ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت الجھن کا شکار ہے اور مولانا صاحبان کو خطرہ ہے کہ (مذاکرات) کا آپشن اڑنا جائے اور کہیں نواز شریف فوج کے دباؤ میں نا آجائیں۔‘‘

پاکستان کا ایک انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ایک ایسے وقت جب ریاست کی پوزیشن کمزور ہے شدت پسندوں سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو شدت پسندوں کے چنگل سے بچنے کے لیے ان سے لڑانا ہوگا۔

گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران حکام کے مطابق 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک اور ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
XS
SM
MD
LG