رسائی کے لنکس

بھارت نے بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے: مشیر قومی سلامتی


پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے ایک بھارتی میڈیا ادارے ”دی وائر“ کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک پیغام بھیجا ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ اگست 2019 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام دو علاقے بنانے کے فیصلے کے بعد کسی پاکستانی اہل کار کا کسی بھارتی میڈیا کو یہ پہلا انٹرویو ہے۔

معید یوسف پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم عمران خان کی اسٹریٹجک پالیسی پلاننگ کے بھی مشیر ہیں۔

معید یوسف کے بیان پر بھارت کی جانب سے تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے مذاکرات کا سلسلہ بند ہے۔ پاکستان متعدد بار بھارت سے مذاکرات شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

فروری 2019 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے قصبے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد، جس میں سی آر پی ایف کے 40 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے، دونوں ملکوں میں کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ یہاں تک کہ جوہری طاقت کے حامل دونوں پڑوسی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔

ڈاکٹر معید یوسف نے کرن تھاپر کو دیے جانے والے اپنے اس 75 منٹ کے انٹرویو میں اس بارے میں تفصیل نہیں بتائی کہ بھارت نے کب اور کس طرح مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے؟ لیکن انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ اس بات چیت میں کشمیریوں کو تیسرے فریق کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔

بھارت کی جانب سے ایسی کسی بات چیت کا تا حال آغاز نہیں کیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہے۔

بھارت کا موقف رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں دہشت گردی کے مسئلے پر بھی تبادلہ خیال ہونا چاہیے۔

معید یوسف نے انٹرویو کے دوران دو ٹوک اور بے لاگ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں بالغ النظری کے ساتھ ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دو مسئلے ہیں۔ کشمیر اور دہشت گردی۔ اور میں دونوں مسئلوں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان امن کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے بھی بار بار اس بات کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے کہ دونوں ملکوں میں پر امن تعلقات ہونے چاہئیں۔ لیکن بات چیت کے سلسلے میں اس کی جانب سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

معید یوسف نے یہ بات بار بار دوہرائی کہ بات چیت میں کشمیریوں کو تیسرے فریق کے طور پر شامل کیا جائے اور دوسری بات یہ کہ دو پیشگی شرطیں ہونی چاہئیں یعنی بھارت ”کشمیر کا محاصرہ ختم کرے“ اور اقامت کے نئے ڈومیسائل کا قانون واپس لے۔

نئے اقامتی قانون کے تحت غیر کشمیریوں کو بھی غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل رہی ہے جس کی کشمیر کے عوام نے مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے گا۔

انٹرویو کے دوران ایک بار معید یوسف نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول پر طنز کیا اور کہا کہ ”میرا موازنہ بھارت کے میرے ہم منصب سے کریں“۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ہدف اپنے وزیر اعظم عمران خان کے لیے سیاسی مواقع میں اضافہ کرنا ہے۔

اس طویل انٹرویو میں متعدد سوالات پوچھے گئے اور بے شمار ایشوز پر گفتگو کی گئی۔ جیسے کہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر پاکستان اتنی سرگرمی کیوں دکھا رہا ہے۔ کیا یہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبے کی حیثیت تفویض کرنے کی پاکستان کی نیت سے متضاد نہیں ہے۔

یہ بھی پوچھا گیا کہ پاکستان دفعہ 370 کی بحالی کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے جب کہ اس نے قبل ازیں اسے ایک مصنوعی دفعہ قرار دیا تھا اور پاکستانی ہائی کمشنر نے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ سے ملنے سے انکار کیا تھا۔ دفعہ 370 کے سلسلے میں پاکستان کی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ (ملیشیا اور ترکی کو چھوڑ کر کسی نے توجہ نہیں دی)۔

بھارت کا موقف ہے کہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اس کا داخلی معاملہ ہے اور یہ قدم آئین کی روشنی میں اٹھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اس سلسلے میں ایک بل کی منظوری دی تھی۔

یہ سوال بھی کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر میں نسل کشی کا الزام لگایا اور چین میں ایغور مسلمانوں کی بدحالی پر خاموشی اختیار کی یا لا علمی ظاہر کی۔

کرن تھاپر نے مسئلہ کشمیر کے بعد بھارتی بحریہ کے ایک مبینہ افسر کلبھوشن جادھو سے متعلق سوال کیا جنھیں پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں ایک فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی ہے۔ بھارت جادھو کے جاسوسی میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔

کرن تھاپر نے پوچھا کہ پاکستان جادھو کو بلا تعطل اور غیر مشروط قونصلر رسائی دینے سے کیوں انکار کر رہا ہے۔ وہ اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات بھارت کے حوالے کیوں نہیں کرتا جو کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق عدالت میں اس سلسلے میں دیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ضروری ہے۔

انھوں نے یہ بھی سوال کیا کہ پاکستان اس کیس میں ایک بھارتی وکیل یا کوئنز کونسل کے تقرر کی اجازت کیوں نہیں دے رہا ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ کی بار ایسوسی ایشن نے دھمکی دی ہے کہ اگر کسی پاکستانی وکیل نے جادھو کا دفاع کیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

اس سے قبل بھارت نے کسی بھارتی وکیل کے تقرر کی اجازت چاہی تھی اور یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ لندن میں وکالت کرنے والے بھارتی وکیل ہریش سالوے کو جادھو کا کیس لڑنے کی اجازت دے۔ کیونکہ ہریش سالوے کوئنز کونسل ہیں اور کوئنز کونسل کو دولت مشترکہ کے ممبر ملکوں میں قانونی پریکٹس کی اجازت ہے۔ لیکن پاکستان نے بھارت کی یہ تجویز نامنظور کر دی۔

معید یوسف سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ پاکستان کی سرزمین سے بھارت کے خلاف کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف اقدامات کرنے سے پاکستان بار بار کیوں انکار کرتا ہے۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے سات ملزموں کے خلاف بھی عدالتی کارروائی کرنے میں پاکستان ناکام ہے۔ یہ لوگ ضمانت پر باہر ہیں یا پھر ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں؟

پاکستان نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو بھارت سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

ان سوالوں کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ ”کشمیری ہندوستانیوں سے نفرت کرتے ہیں“۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگست 2019 کی آئینی ترمیم کا معاملہ داخلی معاملہ نہیں ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا معاملہ ہے۔

انھوں نے ایغور مسلمانوں کے معاملے پر عمران خان کی مبینہ خاموشی اور کشمیر میں نسل کشی کے الزامات کے سلسلے میں کہا کہ یہ ایک غلط موازنہ ہے۔ ایغور کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور وہ اس پر سو فیصد مطمئن ہیں کہ چینی حکومت ان کے ساتھ اچھا سلوک کر رہی ہے اور اس بارے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کلبھوشن جادھو کے بارے میں معید یوسف نے کہا کہ ”بھارت رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے“۔ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت پاکستانی عدالت میں بھارتی وکیل کو جرح کرنے کی اجازت دی جائے۔

انھوں نے اس کی تردید کی کہ پاکستان نے جادھو کو بلا شرط اور بلا تعطل قونصلر رسائی نہیں دی۔ تاہم انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا کہ جادھو سے ملاقات کے دوران ہمیشہ ایک پاکستانی اہل کار کیوں موجود رہا اور پاکستان نے ملاقات کی ریکارڈنگ پر کیوں اصرار کیا۔

´خیال رہے کہ پاکستان نے دو مرتبہ کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی دی اور ایک بار ان کی والدہ اور ان کی اہلیہ کی ان سے ملاقات بھی کروائی۔

ممبئی کے دہشت گرد حملوں کے بارے میں ملزموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے معاملے پر معید یوسف نے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ بھارت جان بوجھ کر شواہد پیش کرنے اور گواہوں کو بھیجنے میں تاخیر کر رہا ہے کیونکہ وہ اس معاملے کو زندہ رکھنا اور اس کی آڑ میں عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں کارروائیاں کی گئی ہیں۔ البتہ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس بارے میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔ وہ جن کاغذات کو ٹھوس ثبوت کہتا ہے وہ اخباروں کے تراشے ہیں۔

معید یوسف نے انٹرویو کے دوران بھارت پر پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ 2019 میں کابل میں بھارتی سفارت خانے نے تحریک طالبان پاکستان کو چار دہشت گرد گروپوں کو ضم ہونے کے لیے 10 لاکھ ڈالرز دیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے دو دہشت گرد گروپوں کے نام بھی بتائے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ 2014 میں پشاور کے آرمی اسکول پر دہشت گرد حملہ کرنے کا ذمہ دار شخص بھارتی قونصلیٹ سے رابطے میں تھا۔ (لیکن انھوں نے اس کا نام نہیں بتایا)۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس شخص کا فون نمبر ہے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے افغانستان میں بھارتی سفارت خانے پر بلوچ دہشت گردوں کو مالی وسائل فراہم کرنے کا بھی الزام لگایا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان نیشنل آرمی کمانڈر کا دہلی کے ایک اسپتال میں علاج کیا جا چکا ہے۔

بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG