اسلام آباد —
پاکستان سے پیر کو پہلی مرتبہ پڑوسی ملک افغانستان کی سیکورٹی فورسز کے لیے عسکری ساز و سامان کی ترسیل فضائی راستے سے کی گئی۔
وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اپنی نوعیت کی پہلی کمرشل پرواز افغانستان کے بگرام ائیر بیس گئی، جس کے ذریعے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے لیے 15 فوجی گاڑیاں روانہ کی گئیں۔
بیان میں کہا گیا کہ افغان فورسز کے لیے عسکری ساز و سامان کی فضائی راستے سے ترسیل کی اجازت حکومت پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے ایک اقدام کے طور پر دی گئی ہے۔
پاکستان سے افغانستان کے لیے فوجی سامان لے جانے والی پرواز کی روانگی سے قبل سیکرٹری دفاع لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک بھی ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
جو گاڑیاں ہوائی جہاز کے ذریعے افغانستان بھیجی گئیں اُن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ان کی فوری ضرورت بھی تھی۔
دفاعی اُمور کے ماہر لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ یہ اقدام نا صرف پاکستان اور افغانستان کی سیاسی حکومتوں بلکہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان بھی ہم آہنگی کا سبب بنے گا۔
''کیوں کہ ہمیں خود اس خطے میں استحکام چاہیئے اور تب ہی ممکن ہے جب افغانستاں بھی مستحکم ہو گا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ افغانستان کی جو نئی (منتخب) ہونے والی قیادت دونوں ملکوں کو بہتر بنانے کے لیے پرزور طریقے سے کوشش کرے گی۔۔۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون بھی بہتر ہو۔''
پاکستانی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان کے لیے فوجی سامان کی فضائی راستے سے یہ ترسیل بنیادی طور پر جولائی 2012ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان طے پانے والی ایک مفاہمتی یاداشت کا حصہ ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق ساز و سامان کی ترسیل کے لیے یہ کمرشل آپریشن آئندہ چند ہفتوں تک جاری رہے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اس کا مقصد افغان سکیورٹی فورسز کے لیے ضروری فوجی سامان کی جلد ترسیل کو یقینی بنانا ہے تاکہ یہ پڑوسی ملک میں سلامتی اور استحکام کا سبب بنے۔
پاکستانی وزارت دفاع کے بیان میں اس اُمید کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے موجودہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا بھی سبب بنے گا۔
وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اپنی نوعیت کی پہلی کمرشل پرواز افغانستان کے بگرام ائیر بیس گئی، جس کے ذریعے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے لیے 15 فوجی گاڑیاں روانہ کی گئیں۔
بیان میں کہا گیا کہ افغان فورسز کے لیے عسکری ساز و سامان کی فضائی راستے سے ترسیل کی اجازت حکومت پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے ایک اقدام کے طور پر دی گئی ہے۔
پاکستان سے افغانستان کے لیے فوجی سامان لے جانے والی پرواز کی روانگی سے قبل سیکرٹری دفاع لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک بھی ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
جو گاڑیاں ہوائی جہاز کے ذریعے افغانستان بھیجی گئیں اُن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ان کی فوری ضرورت بھی تھی۔
دفاعی اُمور کے ماہر لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ یہ اقدام نا صرف پاکستان اور افغانستان کی سیاسی حکومتوں بلکہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان بھی ہم آہنگی کا سبب بنے گا۔
''کیوں کہ ہمیں خود اس خطے میں استحکام چاہیئے اور تب ہی ممکن ہے جب افغانستاں بھی مستحکم ہو گا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ افغانستان کی جو نئی (منتخب) ہونے والی قیادت دونوں ملکوں کو بہتر بنانے کے لیے پرزور طریقے سے کوشش کرے گی۔۔۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون بھی بہتر ہو۔''
پاکستانی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان کے لیے فوجی سامان کی فضائی راستے سے یہ ترسیل بنیادی طور پر جولائی 2012ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان طے پانے والی ایک مفاہمتی یاداشت کا حصہ ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق ساز و سامان کی ترسیل کے لیے یہ کمرشل آپریشن آئندہ چند ہفتوں تک جاری رہے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اس کا مقصد افغان سکیورٹی فورسز کے لیے ضروری فوجی سامان کی جلد ترسیل کو یقینی بنانا ہے تاکہ یہ پڑوسی ملک میں سلامتی اور استحکام کا سبب بنے۔
پاکستانی وزارت دفاع کے بیان میں اس اُمید کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے موجودہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا بھی سبب بنے گا۔