بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ جمعہ کی شب ایک ریستوران پر حملے کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے جب کہ بنگلہ دیش میں دو روزہ سوگ پیر کو دوسرے روز بھی منایا گیا۔
ریستوران پر حملے کے دوران کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے گئے افراد میں سے 20 کو قتل کر دیا گیا تھا جب کہ حملہ آورں سے جھڑپ میں دو پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔
اگرچہ شدت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ساتوں حملہ آوروں کا داعش سے کوئی براہ راست تعلق ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔
سات حملہ آورں میں سے چھ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے، جب کہ ایک کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پاکستان نے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اُن خبروں کو مسترد کیا ہے جن میں پاکستان پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا ایک بیان میں کہا کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات غیر ذمہ دارانہ اور قابل افسوس ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
بیان کے مطابق بھارتی ذرائع ابلاغ نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے مشیر گوہر رضوی کے حوالے سے کہا تھا کہ ڈھاکا حملوں کا ذمہ دار پاکستان اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔
لیکن پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مطابق گوہر رضوی نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ جب کہ نفیس ذکریا کہ بقول گوہر رضوی نے ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی اپنے وضاحتی بیان سے آگاہ کیا۔
پاکستان کی طرف سے ڈھاکا میں ہونے حملے کی شدت مذمت کی گئی تھی اور پیر کو ایک مرتبہ پھر حکومت کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔
ڈھاکا میں حملے کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے براہ راست پاکستان کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا گیا تھا۔