رسائی کے لنکس

پتنگ باز ایک بار پھر مایوس


پتنگ باز ایک بار پھر مایوس
پتنگ باز ایک بار پھر مایوس

پتنگ بازوں نے خود سے ہی 26 فروری کو بسنت منانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے چوری چھپے پنجاب کے مختلف شہروں میں تھوڑی بہت پتنگ بازی بھی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن حکومتِ پنجاب نے بسنت کے انعقاد کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے جو کمیٹی قائم کی تھی اس کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر بسنت منائی گئی تو دھاتی اور کیمیکل ڈور سے گلے کٹنے کا امکان موجود ہے لہذا بسنت نہیں ہوگی۔

اس موسم میں پنجاب کے شہروں میں نوجوانوں کو پتنگ بازی سے روکنا محال ہوتا ہے اور حکومت کی طرف سے پتنگ بازی پر پابندی کے باوجود مختلف شہروں میں پولیس نے کریک ڈاؤن کرکے بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے جبکہ بعض مقامات پر مقامی پولیس کے اہلکاروں کو پتنگ بازی پر پابندی نافذ کرنے میں غافل پاکر اعلٰی حکام نے اپنے عہدوں سے معطل بھی کیا ہے۔

پتنگ بازی پر پابندی نے سب سے زیادہ اُن لوگوں کو متاثر کیا ہے جن کا روزگار گڈی ڈور کے کاروبار سے منسلک تھا۔ ویسے تو لاہور میں کئی علاقے ہیں جہاں ڈور گڈی بنانے والے کاروبار کرتے تھے مگر اندرون موچی دروازہ کا علاقہ پتنگوں اور ڈور کی خرید وفروخت کے لیے پورے صوبے میں مشہور تھا۔ کچھ سال پہلے تک اس علاقے میں داخل ہوں تو چھوٹی چھوٹی گلیوں میں ہر طرف گڈی ڈور کی دکانیں دکھائی دیتی تھیں اور ہزاروں خاندانوں کا روز گار اس صنعت سے وابستہ تھا مگر آج اگر آپ اسی علاقے میں جائیں تو وہاں آپ کو ایک بھی دکان ڈور یا پتنگ کی نہیں ملے گی کیونکہ نااُمید ہو کر اس صنعت سے وابستہ لوگوں نے دوسرے کاروبار شروع کردئیے ہیں۔

کچھ برس پہلے اسی شہر میں بسنت کے دِنوں میں نقشہ یہ ہوتا تھا کہ ہر طرف بسنت کی تیاریاں دکھائی دیتی تھیں۔ لاہور کی اہم ثقافتی شخصیات جن میں میاں یوسف صلاح الدین اور انجمن زندہ دلان لاہور کے صدر خواجہ شکیل جیسے لوگ شامل تھے، بڑے بڑے پروگرام ترتیب دیتے تھے۔ ان پروگراموں میں پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں سے بھی اہم لوگ شریک ہوتے تھے جبکہ کئی بسنت پارٹیوں میں درجنوں کے حساب سے سفارتکار بھی دیکھے جاتے تھے۔ پروگرام ترتیب دینے والوں میں ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے عہدیدار بھی شامل تھے اور وہ بھی اس تہوار کو رنگا رنگ بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اس دور میں کائٹ فلائرز ایسوسی ایشن بھی بنی ہوئی تھی۔

اندرون موچی دروازہ کا ایک حالیہ منظر
اندرون موچی دروازہ کا ایک حالیہ منظر

اس ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نبیل احمد نے جو کہ اندرون موچی دروازہ کے رہائشی ہیں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاہور میں پتنگ بازی صدیوں سے ہو رہی تھی اور ان کے گھروں میں دِن رات پتنگ اور ڈور بنانے والے بے مثال کاریگروں کا ذکر بھی رہتا تھا۔ مشہور پتنگ بازوں کی پیچ لڑانے کی مہارت کے قصے نبیل احمد بچپن سے سُنتے آرہے تھے اور وہ خود بھی پتنگ بازی کے فن میں اپنے آپ کو ایک ماہر سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ دس برس پہلے جب اندرون شہر لاہور میں سرچ لائیٹں لگا کر رات کے وقت چھتوں پر سفید رنگ کی پتنگیں اُڑانے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ فوراً ہی اتنا مقبول ہوگیا کہ اس کو لاہور کی نائٹ بسنت کہا جانے لگا اور بین الاقوامی سطح پر نبیل احمد کے بقول جو لاہور کی بسنت کی شہرت تھی وہ اسی نائٹ بسنت کی وجہ سے تھی۔

سید احمد ایک ملٹی نیشنل کارپوریشن کے ملازم ہیں اُنہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ دُنیا کے کئی ملکوں میں ان کی کمپنی کے دفاتر ہیں اور بسنت کے دِنوں میں ان کی کمپنی کو ان میں سے بیشتر دفتروں کے بعض ملازموں کی طرف سے درخواستیں موصول ہوتی تھیں کہ ان کے لیے لاہور کی نائٹ بسنت دیکھنے کا انتظام کیا جائے۔

اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ بسنت سے چند ہفتے پہلے ہی لاہور کے تمام ہوٹل بُک ہوجایا کرتے تھے اور دوسرے شہروں سے لاہور میں اپنے عزیز رشتے داروں کے گھروں میں آکر بسنت منانے والوں کی تعداد بھی بہت ہوتی تھی۔ اونچی عمارتوں کی چھتوں پر بڑی بڑی پارٹیوں کا اہتمام ہوتا تھا اور چونکہ لوڈ شیڈنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی لہذا رات کو پورا شہر جاگتا تھا اور موسیقی کی محفلیں ، کھانا پینا اور بو کاٹا سرچ لائٹوں کی روشنی میں رات بھر جاری رہتا تھا۔

بابا شریف بھی موچی دروازے کے اسی حصے میں رہتے ہیں جو کبھی گڈی ڈور کی دکانوں کے لیے مشہور تھا جہاں اب دیکھنے کو بھی نہ کوئی پتنگ نظر آتی ہے اور نہ کسی شکل میں ڈور۔ بابا شریف نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ بسنت کو کسی کی نظر لگ گئی ۔ ان کے بقول اس تہوار کا ہم نے خود ہی بیڑا غرق کیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ جن منافع خوروں نے دھات کی ڈور اور کیمیکل ڈور کے کاروبار میں لاکھوں کروڑوں کمائے وہ منافع خور کہیں باہر سے نہیں آئے تھے وہ سب ہمارے ہی لوگ ہیں اور حکومت کے ادارے بھی ان کو جانتے ہیں۔

بابا شریف کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں نے نہ صرف اپنا فرض ادا نہیں کیا بلکہ کچھ سرکاری اہلکار تو ان کے بقول اس گھناؤنے کاروبار میں حصہ دار بن گئے تھے۔ بابا شریف نے کہا کہ دھاتی اور کیمیکل ڈور سے جب عام لوگوں کے گلے کٹنے کے اندوہناک واقعات پیش آنا شروع ہوئے تو یہ تہوار اسی وقت ہی ختم ہوگیا تھا۔ ان کے بقول کوئی بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ تفریح کی خاطر کسی کی جان چلی جائے اور وہ بھی اس انداز میں کہ موٹر سائیکل پر بیٹھا بیٹا باپ کی گود میں لہولہان ہوجائے۔

وہ دور ناظمین کا دور تھا اور لاہور کے ضلعی ناظم کے دفتر میں اس تہوار کو بچانے کے لیے یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ موٹر سائیکلوں کے آگے لوہے کے پائپ لگا دئیے جائیں تاکہ سواریاں مہلک ڈور سے محفوظ رہیں۔ محمد محفوظ اس عملے میں شامل تھے جو ضلع ناظم کے دفتر کی طرف سے ٹاؤن ہال لاہور میں کسی بھی آنے والی موٹر سائیکل کے لیے یہ خدمت مفت فراہم کرتا تھا۔ محمد محفوظ نے بتایا کہ بہت سی موٹر سائیکلوں پر یہ پائپ فٹ کئے گئے مگر اس کے باوجود گلے کٹنے کے واقعات کو نہ روکا جاسکا اور یوں آخرِ کار عدالت کی طرف سے بھی اس تہوار پر پابندی عائد ہوگئی۔ عدالت کو نہ کوئی ضمانت فراہم کرسکا کہ پتنگ بازی سے گلہ کٹنے کا کوئی واقعہ نہیں ہوگا اور نہ ہی پتنگ بازی کی اجازت مل سکی۔

پتنگ باز ایک بار پھر مایوس
پتنگ باز ایک بار پھر مایوس

حکومتِ پنجاب نے بھی اس برس کمیٹی قائم کی تھی جس کے ذمے بسنت کے انعقادکے امکان کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے معاملے کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لے کر حکومت کو یہ رپورٹ دی ہے کہ دھاتی اور کیمیکل ڈور سے گلے کٹنے کا امکان رَد نہیں کیا جاسکتا۔

بسنت کا تہوار کب بحال ہوگا، کب نائٹ بسنت دوبارہ شروع ہوپائے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اطلاعات کے مطابق مختلف تاجروں نے بڑی مقدار میں دھاتی اور کیمیکل ڈور چھپا کر رکھی ہوئی ہے اور حکومت بھی ان تاجروں کے خلاف بظاہر کوئی موثر کریک ڈاؤن نہیں کر پائی ہے۔ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت اس بات سے غافل نہیں ہے اور جونہی کہیں سے اس مہلک کاروبار کی اطلاع ملتی ہے فوراً کارروائی کی جاتی ہے۔

بابا شریف اور نبیل احمد دونوں کا خیال تھا کہ دھاتی اور کیمیکل ڈور کا مسئلہ جلد ختم ہونے والا نہیں اور وہ اس امر پر متفق تھے کہ گڈی ڈور کے کاروبار سے وابستہ زیادہ تر لوگ پہلے ہی معاشی طور پر خاصی تباہی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان دونوں کے بقول اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے پاس جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہوچکی ہے اور بعض کی تو بیٹیوں کی شادیاں تک رُ کی ہوئی ہیں۔ بلکل نااُمید ہو کر بیشتر لوگ دوسرے کاروبار کرنے لگے ہیں مگر خوش نہیں ہیں کیونکہ اکثریت کے نئے کاروبار جم نہیں رہے۔

نبیل احمد نے کہا کہ بسنت پر پابندی کے ایک دو سال بعد تک اُمید تھی کہ یہ کاروبار بحال ہوجائےگا مگر اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہو تو یہ تہوار دوبارہ شروع ہوپائے گا۔ بابا شریف البتہ پُر اُمید تھے۔ اُن کا کہنا تھا یہاں لوگوں نے بسنت کو ہندووانہ تہوار کہا ، کسی نے کہا کہ فضول خرچی ہے ، کسی نے کہا کہ نوجوان اس کام میں پڑ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں مگر پتنگ بازی کبھی رُ کی نہیں بلکہ بڑھتی ہی رہی۔ ان کے بقول یہ ہماری ثقافت اور لاہور کی پہچان ہے۔ اگر اس کو ظالم منافع خوروں اور مجرم ذہنیت کے لوگوں کے لالچ نے وقتی طور پر ختم کردیا ہے لیکن وہ نا اُمید نہیں ہے کیونکہ اُنہیں یقین ہے کہ چاہے برسوں بعد آئے مگر ایک زمانہ ایسا ضرور آئےگا جب لاہور کی بسنت پھر زندہ ہوگی۔

XS
SM
MD
LG