بینظیر بھٹو قتل کیس کے بارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد دو وفاقی وزراء کے کردار پر سوال اٹھایا جارہا ہے اور حکمران پیپلزپارٹی پر یہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ اصل حقائق جانے کے لیے انھیں شامل تفتیش کیا جائے۔
مقتول سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ایک سابقہ پروٹوکول افسر چوہدری اسلم نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ مس بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے لیے دو موجودہ وفاقی وزراء سے تفتیش کی جائے۔
بدھ کو اسلام آباد میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس واقعے کے حوالے سے ایک دوسری ایف آئی آر درج کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں سابق صدر پرویز مشرف،وفاقی وزیر قانون بابر اعوان،وزیرداخلہ رحمن ملک اور 11دیگر افراد کو بطورملزمان نامزد کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو پر حملے کے وقت دونوں وفاقی وزراء موجود تھے اور وہی یہ بتا سکتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کے قتل سے جڑے حالات وواقعات اور محرکات کیا تھے کیونکہ چوہدری اسلم کے بقول اس ضمن میں مذکورہ وزراء کا کردار مشکوک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مس بھٹو کی ہلاکت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے بہت سے حقائق کو واضح کر دیا ہے اور اب یہ موجودہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اور کتنا جلدی قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچاتی ہے۔
ادھر رحمن ملک کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیپلز پارٹی کی مقتول چیئرپرسن کے قاتلوں کو بے نقاب کرکے عوام کے سامنے کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کررکھا ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایک آزاد اور غیر جانبدار ٹیم اس واقعے کی تفتیش کررہی ہے جو سابق صدر پرویز مشرف کو بھی تفتیش کے دائرے میں لانے کے معاملے پر غور کر رہی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ان پر یا دوسری حکومتی شخصیات پر الزام تراشی کررہے ہیں انھیں ثبوت پیش کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ بینظیر قتل کے بارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت نے آٹھ عہدیداروں جن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی ہے غیر فعال کردیا ہے اور ان سے بازپرس کی جارہی ہے۔