رسائی کے لنکس

پشاور چرچ حملے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ، فضا سوگوار


شہر کے تمام مشنز اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے بند رہے جب کہ سینکڑوں مسیحیوں نے چرچ پر حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور بعض مقامات سے توڑ پھوڑ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور میں گرجا گھر میں خودکش بم دھماکوں سے ہلاکتوں کی تعداد 83 ہو گئی ہے جب کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف مہلک ترین کارروائیوں میں شمار ہونے والے اس حملے پر ملک کے مختلف حصوں میں عیسائی برادری سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

پیر کو پشاور شہر کی فضا سوگوار رہی اور مسیحی برادری خودکش بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں مصروف رہی جب کہ درجنوں زخمی اب بھی شہر کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

پشاور کے گنجان آباد علاقے کوہاٹی گیٹ کے قریب واقع گرجا گھر میں اتوار کی صبح مذہبی رسومات کے اختتام پر دو خودکش بمباروں نے سینکڑوں افراد کے درمیان پہنچ کر جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا تھا۔

حکام نے پیر کو 83 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جس میں 34 خواتین بھی شامل ہیں۔

پیر کو شہر کے تمام مشنز اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے بند رہے جب کہ سینکڑوں مسیحیوں نے چرچ پر حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور بعض مقامات سے توڑ پھوڑ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے منسلک ایک شدت پسند گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر مبینہ امریکی ڈرون حملے بند نا ہوئے تو ملک میں غیر مسلموں کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ تاہم طالبان کے مرکزی ترجمان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی باضابطہ بیان منظر عام پر نہیں آیا۔

صوبہ خیبر پختون خواہ میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے حملے کی پُر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو ملک اور اسلام کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔

دریں اثنا خودکش حملے کے بعد شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پیر کو بھی جاری ہے جس میں مذہبی اقلیتوں، خصوصاً عیسائی برادری کا تحفظ یقینی بنانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔

خیبر پختون خواہ کے علاوہ صوبہ پنجاب کے متعدد شہروں, سب سے بڑے شہر کراچی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں کو مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کرکے گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے عارضی طور پر بند بھی کر دیا۔

ادھر اس بم حملے کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ پولیس کے صوبائی سربراہ احسان غنی کو اس عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ناصر خان درانی کو نیا انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخواہ تعینات کیا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG