رسائی کے لنکس

سینما گھرآباد مگر صنعت تاحال برباد


سینما گھرآباد مگر صنعت تاحال برباد
سینما گھرآباد مگر صنعت تاحال برباد

حالیہ برسوں میں سو سے زیادہ بھارتی فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوچکی ہیں لیکن کامیاب بھارتی فلمیں بھی دو تین ہفتوں سے زیادہ نہیں چل پاتیں کیونکہ دو تین ہفتوں ہی میں غیر قانونی سی ڈیز اور کیبل نیٹ ورک کے غلط استعمال سے یہ فلمیں گھر گھر پہنچ جاتی ہیں اور لوگ ان فلموں کو دیکھنے سینما گھروں میں آنا بند کردیتے ہیں۔

پاکستانی فلمی صنعت کو بحال کرانے کے سلسلے میں بیانات اکثر اخبارات میں دیکھے جاتے ہیں اور فلمی صنعت کے حوالے سے قائم ایسوسی ایشنوں کے انتخابات بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن اکثر لوگ سینما کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں جس کا واضح ثبوت، فلمی صنعت سے متعلق شخصیات کے کہنے کے مطابق، یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں سو سے زیادہ بھارتی فلمیں پاکستانی سینماؤں میں ریلیز ہوچکی ہیں مگر یہاں کی فلمی صنعت کی بحالی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

آل پاکستان سینما اونرز ایسوسی ایشن کے صدر قیصر ثناء اللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ اس سال محض دو پاکستانی فلمیں اب تک ریلیز ہوپائی ہیں اور دونوں ہی اُن کے بقول ناکام رہی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سال کے باقی مہینوں میں زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ پاکستانی فلمیں ریلیز ہونے کے امکانات ہیں۔ قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ ایک سال میں محض سات آٹھ فلمیں بنا کر کوئی فلمی صنعت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس سوال کے جواب میں کہ اُن کے نزدیک فلمی صنعت کی بحالی کس طرح ممکن ہے سینمااونرز ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ جب تک بالکل نئے لوگ اس میدان میں نہیں آتے اور اُن لوگوں کو سرمایہ بھی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک نئی فلمی صنعت قائم نہیں ہو سکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ جو پرانا ڈھانچہ موجود ہے وہ اب فلمی صنعت کو سہارا نہیں دے سکتا۔

واضح رہے کہ گذشتہ برسوں میں فلمی صنعت کا یہ مطالبہ تھا کہ بھارتی فلمیں ریلیز کرنے کی پاکستان میں اجازت دی جانی چاہیے جس سے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نہ صرف سینما گھروں میں رونق آجائے گی بلکہ پاکستانی فلمی صنعت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ حکومتِ پاکستان نے یہ مطالبہ مان لیا مگر حالات بظاہر جوں کے توں ہیں۔ قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ یہ اب واضح ہوچکا ہے کہ بھارتی فلمیں پاکستانی فلمی صنعت کو سہارا نہیں دے سکی ہیں کیونکہ غیر قانونی سی ڈی بنانے والوں پر حکومت کا کوئی موثر کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کیبل نیٹ ورکس کو سینما میں ریلیز بھارتی فلمیں کیبل پر چلانے سے روکنے میں کلی طور پر کامیاب رہی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ نئی بھارتی فلم اکثر دو ہفتے سے زیادہ سینما میں نہیں چل پاتی کیونکہ ان دو ہفتوں میں وہی فلم غیر قانونی سی ڈیز اور کیبل کے ذریعے گھر گھر پہنچ جاتی ہے۔

سینما گھرآباد مگر صنعت تاحال برباد
سینما گھرآباد مگر صنعت تاحال برباد

ایک سوال کے جواب میں قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ پچھلے سال 33 بھارتی فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوئیں جبکہ اس برس کے پہلے چھ مہینوں میں محض نو بھارتی فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوسکی ہیں اور امکان غالب ہے کہ اس سال ان کی تعداد گذشتہ برس کی نسبت کم رہے گی۔ اُنہوں نے بتایا کہ بھارتی فلموں کی آمد سے یہاں جو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ہیں اور اُن کے بقول محض اتنا ہوا ہے کہ جس رفتار سے پاکستان میں سینما گھر ختم ہورہے تھے وہ رفتار کچھ سست پڑ گئی ہے وگرنہ فلمی صنعت اب بھی زوال ہی کی طرف مائل ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ حکومتی سطح پر فلمی صنعت کی کوئی امداد ہو رہی ہے قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت نے پاکستانی فلموں پر ٹیکس معاف کررکھا ہے مگر اس کے باوجود مقامی فلم پروڈیوسر گھاٹے میں جارہے ہیں۔ اس برس ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم "چناں سچی مچی" کی مثال دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ فلم تو وہ خرچہ بھی پورا نہ کرسکی جو اس کی پبلسٹی پر ہوا تھا۔ بھارتی اور انگریزی فلموں پر حکومت نے جو 65 فیصد ٹیکس لگا رکھا ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے فلمی صنعت کے عہدیداروں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اس ٹیکس کی شرح کم کرکے 20فیصد کردی جائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ٹیکس میں اس کمی سے زیادہ بھارتی فلمیں پاکستان آسکیں گی تاہم ساتھ ہی اُن کا اس بات پر بھی اصرار تھا کہ جتنی بھی بھارتی فلمیں پاکستان آجائیں جب تک مقامی فلمی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہوگی یہاں سینما گھروں کی رونق بحال نہ ہوسکے گی۔

بھارتی فلموں کے سینسر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ ابھی تک تو اس حوالے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ بعض لوگوں کو خدشہ تھا کہ "راون" نام کی بھارتی فلم کو شاید اجازت نہ مل پائے مگر سینسر بورڈ نے اس فلم کو بھی پاس کردیا ہے۔

XS
SM
MD
LG