رسائی کے لنکس

جنوبی وزیرستان: بے گھر قبائلیوں کی واپسی کی ایک اور کوشش


جنوبی وزیرستان: بے گھر قبائلیوں کی واپسی کی ایک اور کوشش
جنوبی وزیرستان: بے گھر قبائلیوں کی واپسی کی ایک اور کوشش

جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار عاطف الرحمن نے حال ہی میں صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور میں محصود قبائل کے ایک جرگے کے بعد کہا کہ حکومت نے واپسی کا عمل شروع کرنے کے لیے دسمبر کے پہلے ہفتے کا انتخاب کیا ہے۔ واپس جانے والے ہر خاندان کو 25 ہزار روپے نقد ادائیگی کے علاوہ چھ ماہ کا راشن اور خیمے بھی فراہم کیے جائیں گے جب کہ ان کو ذرائع آمدورفت کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہو گی

قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے سکیورٹی فورسز اور طالبان شدت پسندوں کے درمیان لڑائی کے باعث نقل مکانی کرنے والے قبائل کی اپنے علاقوں کو واپسی کے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے لیکن شورش زدہ رقبائلی پٹی سے ملحقہ علاقوں میں عارضی پناہ لینے والے ہزاروں خاندان بعض تحفظات کی وجہ سے واپس جانے سے گریزاں ہیں۔

جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار عاطف الرحمن نے حال ہی میں صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور میں محصود قبائل کے ایک جرگے کے بعد بتایا کہ حکومت نے واپسی کا عمل شروع کرنے کے لیے دسمبر کے پہلے ہفتے کا انتخاب کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ واپس جانے والے ہر خاندان کو 25 ہزار روپے نقد ادائیگی کے علاوہ چھ ماہ کا راشن اور خیمے بھی فراہم کیے جائیں گے جب کہ ان کو ذرائع آمدورفت کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔

تاہم جرگے میں شامل قبائلی رہنما ملک بوغی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپسی کے حوالے سے حکومتی فیصلہ قبل از وقت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان کئی ماہ تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے باعث قبائلیوں کے مکانات یا تو منہدم ہو چکے ہیں یا اُن کو نقصان پہنچا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں شدید سردی کا آغاز ہو چکا ہے اور ایسی صورتحال میں موزوں مکانات کی غیر موجودگی میں اس علاقے میں رہنا انتہائی مشکل ہوگا۔ قبائلی رہنما کے مطابق اس علاقے میں بسنے والے بیشتر افراد عام طور پر نومبر سے اپریل کے مہینوں کا درمیانی عرصہ ملک کے دوسرے علاقوں میں گزارتے ہیں۔

ملک بوغی شاہ نے قبائلی علاقے میں امن و امان کی صورتحال پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

جرگہ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ قبائل اپنے علاقوں میں واپس جا کر شدت پسندوں کے خلاف لشکر تشکیل دیں تاکہ طالبان کو مستقبل میں کسی قسم کی پیش قدمی کی صورت میں مقامی طور پر مزاہمت کا سامنا ہو اور علاقے میں تعینات ہزاروں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جا سکے۔

تاہم بعض قبائلی رہنمالشکروں کی مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول یہ اقدام قبائلیوں کو جنگ میں جھونکنے کے مترادف ہو گا۔

مغربی ملک بشمول امریکہ پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں موجود افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کرے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ علاقے میں تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں اور مزید کسی کارروائی کا فیصلہ زمینی حقائق اور سکیو رٹی فورسز کی استعداد کو مدد نظر رکھ کر کیا جائے گا۔

جنوبی وزیرستان: بے گھر قبائلیوں کی واپسی کی ایک اور کوشش
جنوبی وزیرستان: بے گھر قبائلیوں کی واپسی کی ایک اور کوشش

پاکستان کی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گذشتہ سال اکتوبر میں جنوبی وزیرستان میں موجود طالبان جنگجوؤں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ کئی ماہ کی لڑائی کے بعد علاقے کے بیشتر حصوں سے شدت پسندوں کے خاتمے کا دعویٰ کیاتھا لیکن عسکریت پسند وں نے یہاں وقفے وقفے سے سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

ملک کے اندر ہی مہاجرین کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ان تقریباً دو لاکھ افراد کی واپسی سے متعلق یہ تیسرا اعلان ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کی گئی کوششوں کی طرح حالیہ کوشش کی کامیابی کے امکانات بھی کافی محدود ہیں۔

بے گھر ہونے والوں کی بیشتر تعداد صوبہ خیبر پختون خواہ کے شہروں ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل ، اور صوبہ پنجاب کے مختلف جنوبی علاقوں میں کرائے کے مکانات یا رشتہ داروں کے گھروں میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG