رسائی کے لنکس

کشمیر: لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باعث تجارت معطل


پاکستان اور بھارت نے 2008ء میں لائن آف کنٹرول پر دو مقامات کے راستے تجارت کا آغاز کیا تھا، تاہم قابلِ تجارت اشیاء کی فہرست میں رد وبدل کی وجہ سے تجاری حجم میں غیر معمولی کمی آ چکی ہے۔

کشمیر کو منقسم کرنے والی سرحد پر جاری کشدیگی کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے زیرِ انتظام حصوں کے درمیان تجارت کا سلسلہ معطل ہو گیا ہے۔

’لائن آف کنٹرول‘ (ایل او سی) پر اس کشیدگی کا آغاز رواں ماہ کے اوائل میں اُس وقت ہوا جب بھارت نے اپنے پانچ فوجیوں کی ہلاکت کا الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا۔

حالیہ دنوں میں حد بندی لائن پر دونوں ممالک کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے، جس سے پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں دو شہری ہلاک اور فوجیوں سمیت متعدد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت سے متعلق پاکستانی کشمیر کے ایوانِ صنعت و تجارت کی کمیٹی کے سربراہ ذوالفقار عباسی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو سے میں بتایا کہ سرحد پر فائربندی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کا ’’پہلا شکار‘‘ ایل او سی کے راستے ہونے والی تجارت بنی ہے۔

’’تاجر عدم تحفظ کا شکار ہیں اور تجارت بند ہو گئی ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ کشمیر کے راستے تجارت بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کے سلسلے میں اعتماد سازی کے لیے کی گئی کوششوں میں سے ایک اہم اقدام ہے۔

’’اس (تجارت کی معطلی) پر ہمیں بہت پریشانی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگوں کے لیے یہ بڑا دھچکا ہے ... یہ تجارت لوگوں کے درمیان رابطے کے علاوہ روزگار کا ذریعہ بھی تھی اور اس سے خطے میں پایا جانے والا تناؤ بھی کم ہو رہا تھا۔‘‘

ذوالفقار عباسی نے بتایا کہ منقسم کشمیر کے تاجر چاہتے ہیں کہ حالات جلد از جلد معمول پر آئیں تاکہ تجارتی روابط بحال ہو سکیں۔

’’کشمیر سے تعلق رکھنے والے تاجر چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں اور اُن کو محدود سرمایہ دستیاب ہے ... تو اُنھوں نے جتنی سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ اس وقت داؤ پر لگ گئی ہے۔‘‘

ذوالفقار عباسی کا کہنا تھا کہ حالیہ کشدگی کی وجہ سے بھارتِ کے زیرِ انتظام کشمیر کے تجاروں کے وفد کی پاکستانی کشمیر آمد کو موخر کرنا پڑا ہے۔

اُن کے بقول تاجروں کا مطالبہ ہے کہ بھارت اور پاکستان حالیہ کشیدگی کا پُر امن حل تلاش کریں اور لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کو بحال کر کے اُس کو مزید وسعت دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

کشمیر میں دوطرفہ تجارت کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا، جو سری نگر اور مظفر آباد، اور پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان کی جاتی ہے۔

دورِ عروج میں ہر ہفتے دونوں میں سے ہر ایک راستے کے ذریعے لگ بھگ 400 ٹرکوں کی سرحد کے آر پار آمد و رفت ریکارڈ کی گئی۔ تاہم گزشتہ برس کے آغاز سے تجارت میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی اور ہفتہ وار آمد و رفت محض 20 ٹرکوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔

اس صورتِ حال کی بڑی وجہ قابل تجارت اشیاء میں کمی بتائی جاتی ہے۔ آغاز میں 21 اشیاء کی تجارت کی اجازت دی گئی تھی جو اب گھٹ کر 14 رہ گئی ہے۔
XS
SM
MD
LG