رسائی کے لنکس

اٹھارویں ترمیم کا مسودہ پارلیمان میں پیش، 58(2)B ختم کرنے کی سفارش


رضا ربانی سینٹ میں آئینی اصلاحات کا مسودہ پیش کررہے ہیں
رضا ربانی سینٹ میں آئینی اصلاحات کا مسودہ پیش کررہے ہیں

18 ویں ترمیم کا مسودہ بحث اور منظوری کے لیے جمعے کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ آئینی کمیٹی کے سربراہ سینیٹرمیاں رضا ربانی نے اس موقع پر قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اس دستاویز میں اتفاق رائے سے شامل کی جانے والی شقوں کی تفصیلات سے بتاتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائی گئی سترویں ترمیم کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے اس کی منسوخی کی سفارش کی ہے ۔

رضا ربانی نے کہا کہ منتخب حکومت کو برطرف کرنے اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیارات صدر پاکستان کو دینے والی آئینی شق 58(2) بی کوبھی ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ اس اقدام کے لیے صدر وزیراعظم سے مشاورت کا پابند ہوگا۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل چھ میں یہ اضافہ بھی کرنے کی تجویز کی گئی ہے کہ دستور کو معطل کرنے کے کا اقدام آئین سے سنگین غداری ہوگی۔

سترویں ترمیم میں کسی شخص پر دو سے زائد مرتبہ وزیر اعظم یا صوبے کا وزیراعلیٰ بننے پر لگائی گئی پابندی بھی ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

آئینی کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا کہ بہتر طرز حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو اس بات کا پابند کرنے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے کہ وفاقی کابینہ میں اراکین کی تعداد پارلیمان کی مجموعی تعداد کا 11فیصد ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ 43 ہوگی۔ چاروں صوبوں میں بھی حکومت کو 15 رکنی کابینہ رکھنے کا پابند کیا گیا ہے یا پھریہ تعداد بھی صوبائی اسمبلی کی تعداد کا 11 فیصد گی۔ چیف الیکشن کمیشن کا تقرر وزیر اعظم پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر سے مشورے کے بعد کرے گا۔

آئینی کمیٹی نے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام خیبر پختوانخواہ رکھنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ سینٹ کے ارکان کی تعداد میں چار نشستوں کا اضافہ کرکے 104 کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور جس سے چاروں نشستیں ایوان بالا میں چاروں صوبوں سے اقلیتی برادری کو نمائندگی دینا مقصود ہے۔

مسودے کے مطابق صوبائی وزراء اعلیٰ کو پانچ سے زائد مشیر رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح گورنر کی تقرری کے لیے ضروری ہوگا کہ اُس کا تعلق اسی صوبے سے ہو اور وہ وہاں کا ایک رجسٹرڈ ووٹر ہو۔

مجوزہ اٹھارویں ترمیم میں سفارش کی گئی ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر کے آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔


سینٹ میں قائد حزب اختلاف وسیم سجاد پارلیمان کی آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں مسلم لیگ (ق ) کے نمائندے تھے۔ وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں اٹھارویں ترمیم کا پیش کیا جانا ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے ۔

لیکن ان کا ماننا ہے کہ آئین کو معطل کرنے والے کو غدار آئین قرار دینے کے لیے دستور کے آرٹیکل (6)میں ترمیم کے باوجود یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ اس سے فوجی بغاوتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ”اصل بات یہ ہے کہ اس سے فوجی بغاوت کا راستہ تو نہیں رکتا ۔ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آیا حکومت وقت بہتر طرز حکمرانی سے لوگوں کے مسائل پر توجہ دیتی ہے یا نہیں اور لوگ حکومت کی پالیسیوں سے مطمئن ہیں یا نہیں“۔ وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام دونوں کو یہ احساس رہے کہ جمہوریت ہی سب کے لیے مفید ہے اور اس کی سب کو مل کر حفاظت کرنی ہے۔


XS
SM
MD
LG