رسائی کے لنکس

پاکستان میں بد عنوانی میں اضافے کی رپورٹ پر امریکی ادارے کی تشویش


اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب کا منظر
اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب کا منظر

بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی اس تازہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جو گذشتہ سال دنیا کا بیالیسواں بدعنوان ترین ملک تھا اس سال چونتیس ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

بدھ کو اسلام آباد میں وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی ادارے کے چیف فِنانشل آفیسر ڈیوڈ آسٹرمیئر نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ملک کے اندر بد عنوانی میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے پاکستان میں امریکہ کی طرف سے آئندہ پانچ سالوں کے دوران 7.5 ارب ڈالر امداد کے شفاف اور موثر استعمال کو یقینی بنانا بھی مشکل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا ”یہ بات ہمارے لیے یقیناً باعث تشویش ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم ایک ایسی حکمت عملی پر بھی توجھ مرکوز کیے ہوئے ہیں جس کے ذریعے پاکستانی حکومت کو صورتحال بہتربنانے میں مدد فراہم کے جا سکے‘‘۔

ڈیوڈ آسٹرمیئرکا کہنا تھا کہ بدعنوانی کا خاتمہ صرف اُن کے ادارے کی کوششوں سے ہی ممکن نہیں بلکہ یہ حکومت کے مختلف شعبوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کے بدعنوانی سے ہر قیمت پر بچا جائے۔

تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس ہدف کا حصول ایک طویل المدتی عمل ہوگا۔

امریکی ادارے کے عہدیدار نے کہا کہ کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی امداد کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ کسی بھی پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اور اس کے بعد پروگرام کی افادیت کی ہر طرح سے جانچ پڑتال کی جائے اور پاکستان اور امریکہ کے متعلقہ حکام مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ بدعنوانی اور نا اہلی کے امکانات باقی نا رہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ کیری لوگر بل کی امداد کو پاکستان میں موثر ترین طریقے سے بروئے کار لانے کا عزم رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔

دنیا بھر میں بد عنوانی پر نظر رکھنے والی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان ہی وہ تنظیم ہے جسے امریکہ نے کیری لوگر امداد کے شفاف استعمال کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی ہے جب کہ بدھ کو یوایس ایڈ نے پاکستان کے نجی شعبے کے تین مختلف اداروں کے ساتھ مل کر ایک پروگرام کا آغاز کیا جو حکومت پاکستان کے علاوہ ان غیر سرکاری تنظیموں کی استطاعت میں اضافے اور تربیت کے لیے کام کرے گا جو کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد کے استعمال کے پروگراموں میں شامل ہیں۔

چار کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے اس منصوبے کی مدت پاچ سال ہوگی جس کے نفاذ میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ، ایسوسی ایٹ ڈویلپمنٹ اور رورل سپورٹ پروگرام نیٹ ورک شامل ہوں گے۔

اس سلسلے میں فریقین کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور اس موقع پر موجود وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار سلیم سیٹھی نے کہا کہ طرز حکومت میں نقائص پر جو بھی تنقید ہوتی ہے اس کے تناظر میں حکومت نے کئی معاملات پر اپنی اصلاح بھی کی ہے اوران کے مطابق سرکاری ادارے بہتر طرز حکمرانی کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔

کیری لوگر امداد کی تقسیم کا حتمی تناسب اگرچے ابھی مقررنہیں لیکن ڈیوڈ آسٹر میئر کا کہنا ہے کہ اس میں سے تقریبا پچاس فیصد براہ راست حکومت پاکستان جبکہ باقی پچاس فیصد نجی اداروں کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے جن میں خود امریکی ادارے بھی شامل ہوں گے۔

دریں اثنا وفاقی وزیر اطلاعت قمر زمان کائرہ نے ٹرانپرنسی انٹرنیشنل کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے نے جس طریقے سے رپورٹ مرتب کی ہے وہ ان کے بقول ناقص ہے اور یہ کہ اس میں ان اقدامات کا ذکر نہیں جو حکومت نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG