رسائی کے لنکس

ججوں کی برطرفی کی کوشش آئین سے غداری، سپریم کورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جمعہ کو اٹارنی جنرل انوارالحق کو طلب کیا اور اُن سے نوٹیفکیشن واپس لینے کی خبروں کی وضاحت مانگی جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم ایسی اطلاعات کو رد کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بڑے بنچ نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا اقدام آئین کو سبوتاژ کرنے کے متراد ف ہو گا اور متبنہ کیا کہ ایسا اقدام آئین کی شق چھ کے تحت دستور پاکستان سے غداری ہوگا۔

جمعہ کو عدالتی کارروائی کے دوران عدالت عظمٰی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس حکم نامے سے فوری طور پر تمام آئینی اداروں اور بشمول وزیراعظم اور صدر کو آگاہ کریں اور اُنھیں باور کرایا جائے کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہ کیا جائے۔

پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز نے جمعرات کی رات دیر گئے یہ خبریں نشر کرنا شروع کر دی تھیں کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بحالی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے16 مارچ 2009 ء کے انتظامی حکم نامے کو حکومت واپس لینے پر غور کر رہی ہے۔ مقامی میڈیا پر ان اطلاعات کی تشہیر کے بعد تمام رات دارالحکومت قیاس آرائیوں کی لپیٹ میں رہا۔ اس دوران سرکاری میڈیا نے وزیراعظم کا ایک بیان بھی نشر کیا جس میں انتظامی حکم نامے کو واپس لے کر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو برطرف کرنے کی اطلاعات کی تردید کر دی گئی۔

لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جمعہ کو اٹارنی جنرل انوارالحق کو طلب کیا اور اُن سے نوٹیفکیشن واپس لینے کی خبروں کی وضاحت مانگی جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم ایسی اطلاعات کو رد کر چکے ہیں۔

وزیراعظم گیلانی (فائل فوٹو)
وزیراعظم گیلانی (فائل فوٹو)

تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس بارے میں وفاق کا موقف وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ تحریری طور پر عدالت میں پیش کریں۔ لیکن اٹارنی جنرل نے دو گھنٹوں کی مہلت کے بعد سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیراعظم بعض اہم ملاقاتوں میں مصروف ہیں اس لیے کچھ مزید وقت دیا جائے۔

جس پر چیف جسٹس اور بنچ میں شامل دیگر ججوں نے کہا کہ وزیراعظم تحریری جواب دینے سے گریزاں ہے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے نوٹیفکیشن کی واپسی سے متعلق خبروں کی حکومت انکوائری کرائے اور نتائج سے سپریم کورٹ کو آگاہ کرے۔

بعض حلقے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ نوٹیفکیشن کی واپسی کی خبروں کی تشہیر میں عدلیہ کے کردار کو رد نہیں کیا جاسکتا کیوں اس طرح سپریم کورٹ کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ججوں کی بحالی کے لیے وزیراعظم گیلانی کے انتظامی حکم نامے پر فیصلہ دے سکے۔ بظاہر اسی تاثر کی نفی کرتے ہوئے جمعہ کو کمرہ عدالت میں اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ”میڈیا پر نشر ہونے والے خبریں غلط نہیں ہیں اورعدلیہ جانتی ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے لیکن وہ کسی کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتے اور چاہیں گے کہ یہ کام حکومت کرے“۔

اٹارنی جنرل کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے بعض جج صاحبان کا کہنا تھا تین نومبر2007ء سے قبل ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق بھی ایسی ہی خبریں گردش کررہی تھیں اوراُس وقت کے اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے کہا تھا کہ اس طرح کی اطلاعات درست نہیں۔

عدلیہ اور حکومت میں اس تصادم کی بڑی وجہ این آراو کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہے جس میں اُن آٹھ ہزار افراد کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم بھی دیا گیا ہے جن کے مقدمات این آر او کے تحت معاف کردیے گئے تھے۔ ان افراد میں صدر آصف علی زرداری، ان کے قریبی رفقا اور بعض وفاقی وزراء بھی شامل ہیں۔ این آراو کی منسوخی کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف وفاق کی نظرثانی کی اپیل بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

تاہم حکومت کے قانونی مشیروں کا موقف ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ این آر او نظر ثانی اپیل کو مسترد کر بھی دے تو آئین میں صدر کو یہ استثنیٰ حاصل ہے کہ جب تک وہ اس عہدے پر فائز ہیں اُن کے خلاف فوجداری کے نا تو پرانے مقدمات کھولے جا سکتے ہیں اور نہ ہی نئے مقدمات قائم کیے جاسکتے۔

XS
SM
MD
LG