رسائی کے لنکس

عدالتی کمیشن سے متعلق آئینی شق پر وکلا برادری منقسم


عدالتی کمیشن سے متعلق آئینی شق پر وکلا برادری منقسم
عدالتی کمیشن سے متعلق آئینی شق پر وکلا برادری منقسم

ایک روز قبل صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد اٹھارویں ترمیم پاکستان کے آئین کا حصہ بن گئی ہے لیکن اس کی بعض شقوں کو 1973ء کے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں ان کے خلاف درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں جن میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ متنازع شقوں کو کالعدم قرار دے دے۔

تمام درخواست گزاروں نے آئین میں کی گئی اس ترمیم میں عمومی طورپر ججوں کی تقرری کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی شق پراعتراض کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی اقدام قرار دیاہے۔

اس پیش رفت کے بعد ملک کے قانونی و آئینی ماہرین میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت پارلیمان سے منظور ہونے والی کسی ترمیم کو کالعدم قرار دینے یا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں۔ اس معاملے پر وکلا برادری کے سرکردہ رہنماؤں کی رائے منقسم ہے ۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چودھری اعتزاز احسن
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چودھری اعتزاز احسن

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چودھری اعتزاز احسن نے ایک بار پھر متنبہ کیا ہے کہ ”17 ججووں پر مشتمل سپریم کورٹ 17کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ “کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں رکھتی کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو پارلیمان کسی بھی ایسے فیصلے کو رد کر سکتی ہے اور اس صورت حال میں ملک کے ان دونوں اداروں میں تصادم کا خدشہ ہے"۔

منگل کو عدالت عظمیٰ کے باہر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آج تک کسی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دیا ہے۔ ” (سابق چیف جسٹس ) سجاد علی شاہ نے ایک ترمیم کو معطل کیا تھا اور سجاد علی شاہ صاحب کے ساتھ جو ہوا تھاوہ میں نہیں چاہتا ان کے کسی پیش رو کے ساتھ ہو۔“

تاہم سپریم کورٹ بار کے ہی ایک سابق صدر اکرم شیخ نے اعتزاز احسن کے اس بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین کی کسی بھی ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اور اس کو عبوری حکم کے تحت اسے معطل بھی کرسکتی ہے۔


پاکستان کے سابق وزیر قانون اور 1973ء کے آئین کے ایک خالق عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی ماننا ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں نہ صرف ججوں کی تقرری سے متعلق شق دستور کے منافی ہے بلکہ اس میں شامل بعض دوسری شقیں پاکستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو براہ راست متاثر کر رہی ہیں جس کا پارلیمنٹ کو اختیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ مکمل طور پر بااختیار ہے کہ وہ کسی بھی آئینی ترمیم کا جائزہ لے کر اس بات کا تعین کرے کہ آیا یہ قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے یا نہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ وکلا برادری کے وہ تمام سرکردہ رہنما جنھوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بحالی کے لیے مل کر ایک کامیاب احتجاجی مہم چلائی اٹھارویں ترمیم کی بعض شقوں پر نہ صرف وہ تقسیم ہو گئے ہیں بلکہ میڈیا کے سامنے انھوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم سے متعلق وکلا برادری کی بحث اپنی جگہ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج خلیل الرحمن نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ عدالت کو ہر اس قانون کو معطل کرنے کا اختیار حاصل ہے جو دستور کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لاتا ہو لیکن آیا موجودہ پارلیمان نے مذکورہ ترمیم کے تحت ایسا کوئی اقدام کیا ہے یا نہیں اس پر بحث ہوسکتی ہے۔

سابق جج کا کہنا تھا کہ ’’سپریم کورٹ صرف دستور ساز اسمبلی کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتی اور موجودہ پارلیمان دستور ساز نہیں ہے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمان اگرچہ ترامیم کا اختیار رکھناہے لیکن اگر وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی لانا ہے تو اس سلسلے میں ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی منظوری درکار ہوگی۔

XS
SM
MD
LG