رسائی کے لنکس

فوجی اہلکار کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے: اٹارنی جنرل


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستانی فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے وکیل راجا ارشاد کا کہنا تھا کہ جنھوں نے لاپتا افراد کی بات اٹھائی وہ ایف آئی آر درج کروائیں۔ وزیر دفاع نے کیوں درج کروائی۔

لاپتا افراد کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے جمعرات کو سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ کسی بھی حاضر سروس فوجی اہلکار کے خلاف پولیس کے پاس شکایت یا ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نے مالاکنڈ کے ایک حراستی مرکز سے 35 افراد کے مبینہ طور پر غائب ہونے کے واقعہ پر ایک نائب صوبیدار کے خلاف ایسی ہی کارروائی کی گئی ہے۔

یہ بات اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کو ایک تحریری بیان میں بتائی۔

لاپتا افراد کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سے فوج اور حکومت کے درمیان تناؤ کی بجائے قانون کی بالادستی ممکن ہو گی۔

’’مسلسل اتنے عرصے مارشل لا کی وجہ سے لوگوں میں تاثر ہے کہ فوج کچھ سپر ہیومن ادارہ ہے جس کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ ایف آئی آر میں آرمی کو ملزم قرار دیا ہے ۔۔۔ تو پھر آرمی نا تحقیقات کر سکتی ہے اور نا مقدمہ چلا سکتی ہے۔‘‘

عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس کے پاس شکایت درج ہونے کے بعد فوج کی طرف سے مالاکنڈ حراستی سیل سے متعلق واقعے کی تحقیقات اور پھر عدالتی کارروائی شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔

پاکستانی فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے وکیل راجا ارشاد کا کہنا تھا کہ اس ایف آئی آر کے اندراج کا طریقہ کار درست نہیں۔

’’جنھوں نے کہا کہ یہ لوگ لاپتا ہیں وہ جا کر ایف آئی آر درج کروائیں۔ وزیر دفاع نے کیوں درج کروائی۔ پھر اگر ایک اہلکار ڈیوٹی کے علاوہ کوئی جرم کرے تو اس کے خلاف عام قانون کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے مگر یہ نائب صوبیدار تو ڈیوٹی پر تھا۔‘‘

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت سامنے آئی جب مختلف حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ سلامتی اور دیگر امور پر نواز انتظامیہ اور فوج میں کچھ تناؤ پایا جاتا ہے۔ راجا ارشاد بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’فیڈریشن کی سمت کہیں اور ہے اور فوج کی بحیثیت ادارہ سمت کہیں اور۔ میں نے کہا تھا کہ یہ سب کچھ ایک لابی کر رہی ہے اور اس سے فوج کا مورال کمزور پڑے گا۔‘‘

حکومت میں شامل سینیئر عہدیدار فوج اور حکومت میں اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ سلامتی سے متعلق تمام امور پر اقدامات باہمی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کا مقدمہ 26 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ کسی فوجی اہلکار کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس بات کا تعین کرنا کس کا اختیار ہے کہ فوجی عدالت میں کارروائی چلائی جائے۔
XS
SM
MD
LG