رسائی کے لنکس

حسین حقانی ’میمو‘ کے مصنف: عدالتی کمیشن


حسین حقانی
حسین حقانی

امریکی قیادت کو لکھے گئے مبینہ میمو یا خط کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میمو ’’حقیقت‘‘ تھا اور واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اس کے خالق تھے۔

عدالتی کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ رواں ہفتے سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی اور منگل کو اس بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران اس میں تحریر نکات منظر عام پر آئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بطور پاکستانی شہری حسین حقانی کی تمام تر وفاداریاں اپنے ملک سے ہونی چاہیئے تھیں لیکن وہ یہ بھول گئے تھے اور انھوں نے پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کی۔

عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حسین حقانی مجوزہ قومی سلامتی کونسل کے سربراہ بننا چاہتے تھے اور انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی پاکستانی سویلین حکومت امریکہ کی دوست ہے۔

امریکہ میں مقیم سابق سفیر نے میمو کمیشن کو ’’جانب دار‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کی کارروائی کو چیلنج کریں گے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر حسین حقانی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ ’’سیاسی‘‘ نوعیت کی ہے ناکہ ’’قانونی‘‘۔

’’حب الوطنی کا اندازہ وہ نہیں لگا سکتے جو غیر ملکی الزام تراش کی طرف داری کریں مگر پاکستانی شہری کا موقف تک نا سننیں۔‘‘

سابق سفیر نے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے وقت پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا ہے۔

’’میمو کمیشن کی رپورٹ کو دیگر شرمناک معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

میمو کی تحقیقات سے متعلق تفصیلات منگل کی صبح ایسے وقت افشاں کی گئیں جب چند گھنٹوں بعد ہی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بڑے بیٹے ارسلان پر ملک کی ایک معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض سے مبینہ طور پر کروڑوں روپے ہتھیانے سے متعلق مقدمے کی سماعت ہونا تھی۔

حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کمیشن کی رپورٹ پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کے لیے خلاف توقع نہیں۔

لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کی سابق صدر خاصی برہم دکھائی دیں اور ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمٰی میں منگل کو اس مقدمے کی سماعت سے متعلق انھیں ذرائع ابلاغ سے خبر ہوئی اور قواعد وضوابط کے مطابق رجسٹرار کے دفتر نے انھیں باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا جو طے شدہ ضابطوں اور وکلا کے وقار کے خلاف ہے۔

عاصمہ جہانگیر (فائل فوٹو)
عاصمہ جہانگیر (فائل فوٹو)

’’ارے کوئی پوچھے کہ اگر آپ نے ایک کمیشن بنایا وہ کمیشن پراسیکیوٹر(استغاثہ) بھی خود تھا جج بھی خود تھا اب وکیل بھی خود ہی کھڑا کر لیں، ضرورت کیا ہے۔۔۔۔ یہ کیا طریقہ کار ہے کہ کس طریقے سے بلایا جاتا ہے کہ کوئی ہماری ڈگنیٹی (وقار) ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے وکیل ہیں بالکل ہمیں اس طریقے سے ٹریٹ کیا جا رہا ہے جیسے کوئی سلطنت کے اندر ہم کوئی میراثی ہیں۔‘‘

عاصمہ جہانگیر نے الزام عائد کیا کہ عدالتی کمیشن منصور اعجاز کا مقدمہ لڑ رہا تھا اور اسی رویے پر احتجاجاً وکلا اس کا بائیکاٹ کرچکے تھے۔

’’معذرت کے ساتھ ۔۔۔ کسی کو غدار کہہ دینا یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں ہے کوئی ہوش کے ناخن لینے چاہیے کمیشنوں کو۔۔۔۔‘‘

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے میمو کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے اس مقدمے کے تمام فریقین کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کیے ہیں۔ حسین حقانی سے کہا گیا ہے کہ وہ بھی مقدمے کی آئندہ سماعت کے موقع پر عدالت کے سامنے پیش ہوں۔

پاکستانی فوج کی طرف سے سویلین حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے حسین حقانی نے میمو ’’مراسلے‘‘ میں امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔ اس بات کا انکشاف امریکی شہری منصور اعجاز نے ایک اخباری مضمون میں کیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ حسین حقانی کے کہنے پر انھوں نے میمو امریکی حکام تک پہنچایا تھا۔

منصور اعجاز
منصور اعجاز

ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے بعد حقائق جاننے کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی گئیں اور حکومت نے حسین حقانی کو واشنگٹن سے واپس بلا لیا تھا جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

حسین حقانی نے سپریم کورٹ اور اس کے بعد عدالتی کمیشن کے سامنے اپنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ’’میمو‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے حسین حقانی کو بعد ازاں اس شرط پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی کہ وہ طلب کرنے پر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے امریکہ کے قومی سلامتی کے لیے سابق مشیر جیمز جونز کے توسط سے ایڈمرل مائیک ملن تک ’’میمو‘‘ پہنچانے کے حقائق جاننے کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنایا تھا۔

کمیشن نے حسین حقانی، منصور اعجاز اور پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سابق سربراہ لفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا سمیت متعدد افراد کے بیانات قلمبند کیے۔

XS
SM
MD
LG