متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) عمل درآمد کیس کی سماعت پیر کو سپریم کورٹ میں ہوئی جہاں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے پیش ہو کر اس مقدمے کے بارے میں عدالت کو اپنے موقف سے آگاہ کیا۔
عدالتی کارروائی کے آغاز پر وزیر اعظم نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سے مزید مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کا کوئی قابل قبول حل نکالنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قانونی اور سیاسی حلقوں سے مشاورت ضروری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ عدالت کے رو برو پیش ہو گئے ہیں اور وہ عدلیہ کی نافرمانی کا تاثر نہیں دینا چاہتے۔
اُنھوں نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ اُنھیں جلد چین کے سرکاری دورے پر جانا ہے اس لیے اُنھیں جاری کیا گیا اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لیا جائے، تاہم بینچ نے اس بارے میں کوئی حکم صادر نہیں کیا۔
وزیر اعظم کا موقف سننے کے بعد عدالت نے انھیں 18 ستمبر تک کی مہلت دے دی۔
عدالتی کارروائی کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کا خود عدالت میں پیش ہونا پیپلز پارٹی کے نزدیک عدلیہ کے احترام کا ثبوت ہے۔
’’راجہ صاحب نے بڑی وضاحت سے یہ بات کہی ہے کہ ہم وقت حاصل کرنا نہیں چاہتے، اور آپ بہتر جانتے ہیں دس، پندرہ دن کا ٹائم کیا ہے ۔۔۔ جس طرح جج صاحبان مشاورت کرکے فیصلے کرتے ہیں، پولیٹیکل پراسس تو ہے ہی مشاورت کا نام ہم نے مشاورت کرنی ہے ہمارا یہی طریقہ ہے ہمارے ہاں آمریت نہیں ہے۔‘‘
اُدھر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو بھی بظاہر اس بات کا ادراک ہو چلا ہے کہ این آر او عمل درآمد مقدمے کے فیصلے کی من و عن بجا آوری آسان نہیں۔
’’مجھے امید ہے کہ وزیراعظم صاحب آئین کی پیروی کریں گے اور عدالتیں بھی اس میں ان کی مدد کریں گی۔ وزیراعظم نے آج بڑے مثبت انداز میں کہا ہے کہ عدالت کی جو ہدایت ہے اس پر بھی غور کیا جائے گا۔ تو امید رکھیں کہ یہ جو ایک ایشو پیدا ہوگیا ہے یہ حل ہوجائے گا اور افہام و تفہیم کے ساتھ ہم اس رکاوٹ کو عبور کرلیں گے۔‘‘
صدر زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے سے مسلسل انکار پر عدالت عظمیٰ وزیراعظم پرویز اشرف کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں گھر بھیج چکی ہے۔
غیر جانبدار آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر راجہ پرویز اشرف نے بھی عدالتی فیصلے کے مطابق سوئس حکام کو خط نا لکھا تو انھیں بھی سابق وزیراعظم کی طرح سزا ہوسکتی ہے۔
عدالتی کارروائی کے آغاز پر وزیر اعظم نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سے مزید مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کا کوئی قابل قبول حل نکالنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قانونی اور سیاسی حلقوں سے مشاورت ضروری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ عدالت کے رو برو پیش ہو گئے ہیں اور وہ عدلیہ کی نافرمانی کا تاثر نہیں دینا چاہتے۔
اُنھوں نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ اُنھیں جلد چین کے سرکاری دورے پر جانا ہے اس لیے اُنھیں جاری کیا گیا اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لیا جائے، تاہم بینچ نے اس بارے میں کوئی حکم صادر نہیں کیا۔
وزیر اعظم کا موقف سننے کے بعد عدالت نے انھیں 18 ستمبر تک کی مہلت دے دی۔
عدالتی کارروائی کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کا خود عدالت میں پیش ہونا پیپلز پارٹی کے نزدیک عدلیہ کے احترام کا ثبوت ہے۔
’’راجہ صاحب نے بڑی وضاحت سے یہ بات کہی ہے کہ ہم وقت حاصل کرنا نہیں چاہتے، اور آپ بہتر جانتے ہیں دس، پندرہ دن کا ٹائم کیا ہے ۔۔۔ جس طرح جج صاحبان مشاورت کرکے فیصلے کرتے ہیں، پولیٹیکل پراسس تو ہے ہی مشاورت کا نام ہم نے مشاورت کرنی ہے ہمارا یہی طریقہ ہے ہمارے ہاں آمریت نہیں ہے۔‘‘
اُدھر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو بھی بظاہر اس بات کا ادراک ہو چلا ہے کہ این آر او عمل درآمد مقدمے کے فیصلے کی من و عن بجا آوری آسان نہیں۔
’’مجھے امید ہے کہ وزیراعظم صاحب آئین کی پیروی کریں گے اور عدالتیں بھی اس میں ان کی مدد کریں گی۔ وزیراعظم نے آج بڑے مثبت انداز میں کہا ہے کہ عدالت کی جو ہدایت ہے اس پر بھی غور کیا جائے گا۔ تو امید رکھیں کہ یہ جو ایک ایشو پیدا ہوگیا ہے یہ حل ہوجائے گا اور افہام و تفہیم کے ساتھ ہم اس رکاوٹ کو عبور کرلیں گے۔‘‘
صدر زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے سے مسلسل انکار پر عدالت عظمیٰ وزیراعظم پرویز اشرف کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں گھر بھیج چکی ہے۔
غیر جانبدار آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر راجہ پرویز اشرف نے بھی عدالتی فیصلے کے مطابق سوئس حکام کو خط نا لکھا تو انھیں بھی سابق وزیراعظم کی طرح سزا ہوسکتی ہے۔