رسائی کے لنکس

سابق وزراء اعظم کے لیے اضافی مراعات پر عدالت عظمیٰ کا از خود نوٹس


چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی طرف سے بظاہر سرکاری خرچ پر اور آئین کے منافی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم سمیت وزرائے اعلیٰ، چند اراکین پارلیمنٹ اور دیگر عہدیداروں کو تا حیات سکیورٹی اور غیر معمولی مراعات کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے اس بارے میں جواب طلب کیا ہے۔

مختلف مقامی اخبارات میں مارچ کے مہینے میں شائع ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ راجا پرویز اشرف نے سابق اسمبلی کی تحلیل سے ایک روز قبل خود کو، اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ کو غیر معمولی پروٹوکول فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں بھی ایک بل کے ذریعے وزرائے اعلٰیٰ، اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز کو ایسی ہی مراعات کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی طرف سے بظاہر سرکاری خرچ پر اور آئین کے منافی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس ایک ایسے وقت میں آیا جب پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری اور کئی سیاسی جماعتیں بھر پور طریقے سے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل طارق حسن ججوں کی بحالی میں سرگرم رہنما رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اثرات کے مرتب ہونے کے امکانات کے پیش نظر عدالت اعظمیٰ ایسے معاملات نا اٹھائے تو بہتر ہوگا۔

’’آزاد ہونے کے ساتھ عدالت پر ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ غیر جانبدار رہے۔ یہ لوگ سمجھ نہیں رہے کہ آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بے لگام گھوڑے کی طرح بھاگنا شروع کردیں گے۔ میرے خیال میں ہر اخباری خبر پر بغیر کسے تحقیق کے نوٹس لینا غیر مناسب ہے۔‘‘

طارق حسن کا کہنا تھا کہ عدالت کے از خود نوٹس لینے کا بھی ایک باقاعدہ طریقہ کار اور پیمانہ وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

عدالت اعظمیٰ نے کہا ہے کہ اگر سابق وزرائے اعظم اور سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ چاہیں تو اپنے اقدامات کی وضاحت منگل کو عدالتی سماعت میں کر سکتے ہیں۔

ادھر الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو ہدایت جاری کی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے اضافی سکیورٹی واپس لے۔ جس پر ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شدید اعتراضات کیے گئے۔ پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ موجودہ سیکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر ایسا کرنا سیاسی رہنماؤں کی جان کو غیر محفوظ بنانا ہے۔

علاوہ ازیں سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین بھی عدالت اعظمیٰ کے از خود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سینیٹر سعید غنی اسے ’’قبل از انتخابات دھاندلی‘‘ قرار دیتے ہیں۔

’’اگر پارلیمنٹ یا اسمبلی سے چیزیں منظور ہوئی ہیں تو وہ غیر قانونی نہیں۔ خود محترم ججوں کی گزشتہ چند سالوں میں جتنی تنخواہیں بڑھی ہیں کیا وہ خزانے پر بوجھ نہیں یا انہیں جو پروٹوکول مل رہا ہے وہ ان کے عہدے کے استحکاق کے مطابق ہے؟ ‘‘

ان کا کہنا تھا سیاسی رہنماؤں سے سکیورٹی واپس لینا تشویش ناک ہے۔

’’پہلے تو میڈیا خود کہتا ہے کہ فلاں فلاں سیاسی جماعتوں کے خلاف شدت پسندوں نے دھمکیاں دے رکھی ہیں اور دوسری طرف ایسے اقدامات۔ تو ہم صرف جو عوام کو سنانے کے لیے کررہے ہیں کہ برابری کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں لیکن ایسا نا ہو کہ چند امیدواروں کی ہلاکتوں کے بعد آپ علاقوں میں انتخابات ہی نا کرا سکیں۔‘‘

ماہرین اور حکام پہلے ہی انتخابات کے دوران شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں اور نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابات میں امن و امان کے قیام کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
XS
SM
MD
LG