رسائی کے لنکس

اٹھارویں آ ئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر حکومت کے اعتراضات مستر د


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ کا ایک 17 رکنی بنچ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ا ٹھارویں آئینی ترمیم کی بعض شقوں بالخصوص ججوں کی تعیناتی سے متعلق طریقہ کار کے خلاف دائر 12 سے زائد درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے ۔

پیر کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل ڈاکٹرعبدالباسط نے موقف اختیار کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت کیوں کہ چیف جسٹس ججوں کی تعیناتی کے کمیشن کے سربراہ ہیں اوراس مقدمے میں اُن کی اس حیثیت پر بھی بحث ہو گی اس لیے افتخار محمد چوہدری کو عدالت عظمیٰ کے اس بنچ الگ ہو جانا چاہئیے۔

لیکن سپریم کورٹ نے وفاق کے اعتراضات کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ موجودہ 17 رکنی بنچ ہی یہ مقدمہ سنے گا جس کی آئندہ سماعت منگل کو ہو گی۔

عدالت میں اُس وقت ایک دلچسپ صور ت حال پیدا ہو گئی جب وفاق کے وکیل عبدالباسط نے چیف جسٹس کے استفسار پر عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وہ ایوان صدرمیں موجود صدر زرداری کے ایک سیکرٹری سلمان فاروقی سے ہدایت لے رہے ہیں لیکن بعد میں سلمان فاروقی نے تحریر ی طور پر 17 رکنی بنچ کو آگاہ کیا کہ اُن کا وفاق کے وکیل ڈاکٹر عبدالباسط سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

اس انکشاف کے بعد سپریم کورٹ نے ڈاکٹرعبدالباسط کو عدالت کے سامنے گمراہ کن بیان دینے پر شو کاز نوٹس جاری کردیا جس کی سماعت منگل کو کی جائے گی۔

خیال رہے کہ کئی مہینوں کی مشاورت کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے اٹھارویں ترمیم کی منظور ی دی تھی جس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اس کی متفقہ منظوری اور صدر پاکستان کے دستخطوں کے بعد اب یہ آئین کاحصہ بن چکی ہے۔

حکومت اور پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں اسے جمہوریت کی اہم کامیابی قرار دے رہی ہیں تاہم ججوں کی تعیناتی سمیت بعض شقوں کے خلاف وکلاء تنظیمیں جن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی شامل ہے ،نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG