پاکستان کی عدالت عظمٰی اور لاہور ہائی کورٹ نے دو مختلف مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی طرف سے پانچ ملزمان کو سنائی گئی موت کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے راولپنڈی کی ایک امام بارگاہ پر حملہ کرنے کے الزام میں چار افراد کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں 2002ء میں امام بارگاہ شاہ نجف پر خودکش حملے میں کم از کم 11 افراد ہلاک جب کہ ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے چار افراد حافظ نصیر احمد، حبیب اللہ، طاہر محمود اور فضل حمید کو گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
ملزمان کی طرف اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اس بارے میں پیر کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے سزا سناتے وقت انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عباد الرحمٰن اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سنایا۔
ملزمان کے وکیل کا موقف تھا کہ اُن کے موکلین کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جب کہ وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ امام بارگاہ شاہ نجف پر حملے میں چاروں ملزمان کا کردار سہولت کار کا تھا۔
اُدھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے اغوا برائے تاوان اور قتل کے ایک مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے سزا پانے والے مظہر حسین کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ناکافی شواہد کی بنا پر مظہر حسین کی سزا کالعدم قرار دی۔
پاکستان میں ان دنوں سزائے موت پر عمل درآمد کا معاملہ موضوع بحث ہے۔
پشاور میں ایک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے 2008ء سے ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔
دہشت گردی کے جرائم میں عدالتوں سے سزائیں پانے والے سات مجرموں کو حالیہ دنوں میں پھانسی دی جا چکی ہے۔