رسائی کے لنکس

پاکستان کا بھارت سے سیاچن ’معاہدے‘ پرعمل درآمد کا مطالبہ


گیاری سیکٹر میں امدادی کارروائیاں ہفتہ کو مسلسل ساتویں روز بھی جاری رہیں۔
گیاری سیکٹر میں امدادی کارروائیاں ہفتہ کو مسلسل ساتویں روز بھی جاری رہیں۔

وزارت خارجہ کی عہدے دار نے کہا کہ دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر موسمی حالات سے دونوں جانب ہونے والے جانی نقصانات سے بچنے کا یہی واحد راستہ ہے

پاکستان نے کہا ہےکہ سیاچن گلیشئرپرتنازع کوحل کرنے کےلیے1989ء میں بھارت کے ساتھ جن اصولوں پراتفاق رائے ہوا تھا اُن پرعمل درآمد کرکے دنیا کے اس بلند ترین محاذ جنگ پر موسمی حالات سے دونوں جانب ہونے والے جانی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔

وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیائی اُمور کی ڈائریکٹر جنرل زہرہ اکبری نے ہفتہ کو راولپنڈی میں اعلٰی فوجی حکام کے ہمراہ ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاچن دوطرفہ جامع امن مذاکرات کے موضوعات میں سے ایک ہے اور پاکستان نے ہرموقع پر بھارت کو یہ باورکرانے کی کوشش کی ہےکہ اس مسئلے کو حل ہونا چاہیئے۔

’’ہمارے خیال میں پہلے ہی ایک معاہدہ موجود ہے۔ (پاکستانی) وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور (بھارتی) وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان (1971ء کے) شملہ معاہدے کی بنیاد پر 1989ء میں اس مسئلے کے حل کے لیے اصول طے ہو چکے تھے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس معاہدے کو نافذ کیا جانا چاہیئےاوراس مسئلے کوحل کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کا حل ہی دونوں ملکوں میں اس طرح کے المیہ سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔‘‘

پاکستانی حکام نے سیاچن کے مسئلے کے حل کا مطالبہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب اس گلیشئر کی طرف جانے والی مرکزی گزرگاہ، گیاری سیکٹر میں قائم فوج کے بٹالین ہیڈ کوارٹرز پر برفانی تودہ گرنے سے منوں برف تلے دب جانے والے 139 افراد کی تلاش میں امدادی کارروائیاں آٹھویں روز ہفتہ کے دِن بھی جاری رہیں۔

فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل اشفاق ندیم نے پہلی مرتبہ براہ راست ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کوحادثے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بٹالین ہیڈکوارٹرزسطح سمندر سے 13 ہزار فٹ کی بلندی پرواقع تھا، جو 7 اپریل کو صبح تین اور پانچ بجے کے درمیان 18 ہزار فٹ بلند ایک قریبی پہاڑی سے سرک کر آنے والے برفانی تودے کی زد میں آ گیا۔

اُنھوںنے بتایا کہ برف کے نیچے دب جانے والوں میں 128 فوجی اور عملے کے 11 شہری اہلکار شامل ہیں۔ جنرل ندیم نے حادثے کا شکارہونے والوں کے بارے میں کسی قسم کی قیاس آرائی سے گریز کیا۔

’’اس مرحلے پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہماری اورساری پاکستانی قوم کی دعا ہے کہ اللہ تعالٰی کوئی معجزہ کرے مگرپاکستانی فوج نے تمام ترمشکلات کے باوجود ان کو نکالنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ گیاری سیکٹر میں اس وقت درجہ حرارت منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور برف باری کا سلسلہ بھی جاری ہےمگر چار سو فوجی اور 60 مقامی شہریوں پر مشتمل امدادی ٹیمیں تمام ترمشکل موسمی حالات کے باوجود دن رات کھدائی کے کام میں مصروف ہیں۔

’’پچھلے دو دن میں چھوٹے موٹے مزید تودے بھی ارد گرد کے علاقوں میں گرے ہیں کیوں کہ اپریل اور مئی میں جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو ایسے واقعات پیش آنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘

جنرل ندیم نے کہا کہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے نو ماہرین جائے حادثہ پر پہنچ چکے ہیں جن کے پاس برف میں 30 میٹرگہرائی تک زندگی کے آثار کا پتہ لگانے والے آلات بھی موجود ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقے میں آٹھ مقامات پر کھدائی کا کام جاری ہے لیکن حتمی طور پر صحیح مقام کا اندازہ لگانا ایک مسلسل چیلنج بنا ہوا ہے کیوں کہ مختلف مقامات پر برف کی گہرائی 70 سے 100 فٹ کے درمیان ہے۔

جنرل ندیم نے کہا کہ برفانی تودے کی غیر معمولی جسامت اورتیزرفتاری کے باعث فوجی تنصیب کے ڈھانچے کا اپنی جگہ سے کھسک جانے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا اوراسی لیے امدادی کارکنوں کو صحیح مقام کا اندازہ لگانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

XS
SM
MD
LG