نئی حلقہ بندیوں کا جائزہ لینے کے لیے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے چوبیسویں آئینی ترمیم واپس لینے سمیت مختلف اقدام کی سفارش کی ہے جس کے بعد عام انتخابات کے بروقت انعقاد سے متعلق ایک بار پھر شکوک و شبہات پیدا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت نئی حلقہ بندیاں کرنے کا اختیار دینے کے علاوہ قومی اسمبلی کے لیے مختلف صوبوں کی نشستوں میں کمی بیشی منظور کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ ماہ نئی حلقہ بندیاں جاری کرتے ہوئے اس بارے میں تین اپریل تک اعتراضات جمع کروانے کا کہا تھا جن کی سماعت کے بعد آئندہ ماہ ان حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دی جانی ہے۔
لیکن اس بابت بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے اور یہ معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھائے جانے پر پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں ایک نو رکنی ورکنگ گروپ بنا کر سفارشات تیار کرنے کا کام سونپا تھا۔
اس ورکنگ گروپ کے ہفتہ کو ہونے والے اجلاس میں پانچ سفارشات مرتب کی گئیں جن میں کہا گیا کہ مردم شماری کے عبوری نتائج پر کی گئی حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم واپس لی جائے اور پرانی حلقہ بندیوں پر ہی انتخابات کروانے کے لیے نئی ترمیم لائی جائے۔
آخری حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے 2002ء میں کی گئی تھیں۔
سیاسی و جمہوری امور کے سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کروانے کا معاملہ عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے جس سے ان کے بقول انتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر نئی ترمیم پر اتفاق ہو بھی جاتا ہے تو جن صوبوں میں نئی حلقہ بندیوں سے نشستوں میں اضافہ ہوا ہے وہاں سے کوئی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
"کئی نقطہ نظر عدالت کے روبرو جا سکتے ہیں، خیبر پختونخواہ کی بلوچستان کی نشستوں کی تعداد بڑھ رہی ہے کوئی بھی عدالت جا سکتا ہے۔۔۔ یہ کوئی درست طرز عمل نہیں ہے اس موقع پر اس طرح کی بات کرنا درحقیقت اگلے انتخابات کو مشکوک بنانا اور ان کی تیاری کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے والی بات ہے۔"
لیکن الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری اور انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ کنور دلشاد کے خیال میں اس موقع پر نئی ترمیم لانا مشکل ہے کیونکہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اور الیکشن کمیشن اپنے آئینی اختیار کے مطابق نئی حلقہ بندیاں ترتیب دے چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان نئی حلقہ بندیوں پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ کمیشن میں درخواست دے سکتا ہے جسے کمیشن دور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
"اگر حلقہ بندیوں میں کہیں ابہام ہے تو الیکشن کمیشن کسی وقت بھی اس ابہام کو دور کر سکتا ہے اس کے پاس قانونی اختیار ہے۔۔۔میرا نہیں خیال کہ حلقہ بندیوں کو بنیاد بنا کر انتخابات کے ملتوی ہونے کا امکان ہو۔"
ورکنگ گروپ اپنی سفارشات پارلیمانی کمیٹی میں پیش کرے گا جو اس ایوان میں پیش کرنے کا فیصلہ کرے گی۔