رسائی کے لنکس

خواجہ سراؤں سے متعلق بڑے فیصلوں کی ضرورت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ اور انھیں مساوی شہری حقوق دینے سے متعلق حالیہ مہیںوں میں کی جانے والی کوششیں ماضی کی نسبت زیادہ بلند آہنگ ہوئی ہیں اور اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات ایک درجن سے زائد غیر ملکی سفارتکاروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے عہدیداروں نے زور دیا ہے کہ معاشرے کے اس طبقے کے استحصال کو روکنے کے لیے موثر اقدام وقت کی ضرورت ہیں۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک کا ہمیشہ ہی شکوہ رہا ہے اور ایسے کئی واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں جہاں انھیں شہری حقوق دینا تو درکنار انھیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا۔

انھیں یہ شکایت رہی ہے کہ ان پر ہونے والے مظالم کی شنوائی نہیں ہوتی جب کہ اسپتالوں میں بھی انھیں امتیازی سلوک اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگ عموماً انھیں صرف تفریح کا ذریعہ ہی سمجھتے ہیں۔

انگریزی روزنامہ "ایکسپریس ٹربیون" میں سفارتکاروں کے اظہار خیال پر مبنی ایک مضمون بدھ کو شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ انسانی ربط میں کمی اور خواجہ سراؤں کے حالات سے شناسائی نہ ہونا ہی ایسے عوامل ہیں جو اس برادری سے متعلق نفرت کو پروان چڑھاتے ہیں کیونکہ ہر شخص میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ سمجھ میں نہ آنے والی کسی بھی چیز یا بات کو رد کر سکتا ہے۔

مضمون میں ان اقدام کو سراہا گیا جو خواجہ سراؤں کو معاشرے کا حصہ سمجھنے اور بنانے کے لیے حکومتی اور سماجی سطح پر حالیہ مہیںوں میں کیے گئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس فرق اور خوف کو ختم کرنے کے لیے کئی بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے جس میں قانون سازی، عدالتی فیصلے، میڈیا کی اس ضمن میں پالیسی سازی اور مذہبی حلقوں میں اس طبقے کے لیے بحث اور مذاکرے شامل ہیں۔

گزشتہ ماہ ہی ملک کے ایوان بالا "سینیٹ" کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کو ہدایت کی تھی کہ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع مسودہ قانون تیار کرے۔

اسلام آباد کے نواح میں آباد خواجہ سرا (فائل فوٹو)
اسلام آباد کے نواح میں آباد خواجہ سرا (فائل فوٹو)

کمیشن کے سربراہ علی نواز چوہان نے اُس وقت وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ان کا ادارہ اس ضمن میں جامع مسودہ تیار کر چکا ہے جس میں مزید تجاویز کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول ان والدین کے خلاف بھی سخت اقدام تجویز کیے جائیں گے جو اپنے خواجہ سرا بچوں کو قبول نہیں کرتے اور گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ایک سرگرم کارکن بندیا رانا نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سفارتکاروں کے مضمون کو اپنے دل کی آواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوگ ان کے حق میں بات تو کرتے ہیں اور قانون سازی کی بھی شنید ہے لیکن یہ اقدام اگر آئندہ عام انتخابات سے پہلے نہ کیے گئے تو یہ معاملہ طوالت کا شکار ہو جائے گا۔

"جو بھی سپریم کورٹ نے احکامات دیے تھے چاہے وہ ہمیں نوکریاں دینے کے حوالے سے ہو صحت کے حوالے سے ہو جو بھی ان سب پر انتخابات سے پہلے پہلے عملدرآمد کیا جائے کیونکہ ابھی تو یہ (قانون ساز) کہتے ہیں کہ ہم یہ بھی کر دیں گے وہ بھی کر دیں گے لیکن انتخابات کے بعد پھر ہم دھکے کھاتے رہیں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری چھٹی مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں کو علیحدہ سے شمار کیا جا رہا ہے جس سے توقع ہے کہ اس برادری سے متعلق پالیسی سازی میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔

XS
SM
MD
LG