رسائی کے لنکس

معذور افراد کی ترقی کے لیے علاقائی فورم کا قیام


سٹیپ کے نمائندے عاطف شیخ کانفرنس میں شیلڈ وصول کرتے ہوئے
سٹیپ کے نمائندے عاطف شیخ کانفرنس میں شیلڈ وصول کرتے ہوئے

معذور افراد کوقومی دھارے میں شامل کرکے معاشرے کےدوسرے لوگوں کی طرح یکساں مواقع فراہم کرنے کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے جنوبی ایشیاء کے ملکو ں نے ایک علاقائی گروپ بنانے کا اعلان کیا ہے جس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہوگا۔

ساوتھ ایشیا ڈسیبیلیٹی فورم کے نام سے اس تنظیم کے قیام کا فیصلہ پاکستانی دارالحکومت میں پیر کو ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں سارک میں شامل ملکوں کے علاوہ جاپان اور تھائی لینڈ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

تھائی لینڈ سے آئے ہوئےایشیا پیسیفک ڈویلپمنٹ سینٹر برائے معذوری کے ایک اعلی عہدیدار آکی نینونے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پورے خطے میں ہی حکومتی، عدالتی اور انتظامی نظام اتنا سازگار نہیں ہے جو معذور افرادکو مفید شہری بنانے کے ساتھ ساتھ اُن کی ضروریات کا احساس کرے۔

انھوں نے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ تعلیم کا ہے جس کے حصول کے مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ جو جسمانی طور پر بھلے ہی معذور ہو اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کو کبھی بروئے کار نہیں لا سکتا۔

پاکستان میں معذور افراد کی بہبود کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سٹیپ کے عاطف شیخ جو خود ایک معذور فرد ہیں کہتے ہیں کہ مذکورہ فورم علاقائی ملکوں کی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں اور عالمی امدادی اداروں سے ملنے والی امداد سے چلے گا اور یہ معذور افراد کو روز گارو تعلیم کے بھرپور مواقع فراہم کرنے کے لیے کام کرے گا۔

انھوں نے بتایا کہ یہ فورم علاقائی ملکوں کی حکومتوں کو معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے اشتراک عمل کا موقع دے گا اور جب بھی سارک ممالک کا اجلاس ہوگا خواہ یہ کسی بھی سطح پر ہو تو اس فورم کی جانب سے اپنی سفارشات اور تجاویز پیش کی جائیں گی ۔

کانفرنس میں شریک معذور افراد
کانفرنس میں شریک معذور افراد

کانفرنس میں پاکستان بھر سے معذور افراد بھی شریک تھے جنھوں نے اپنے مسائل اور ضروریات سے مندوبین کو آگاہ کیا۔

پشاور سے آئے ہوئے احسان اللہ داؤد زئی جو ایک ٹانگ سے معذور ہیں، نے اس امر پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ان کی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کے باوجود جسمانی معذوری نے ان کے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ ’’میرا پشاور کے اسلامیہ کالج میں پری میڈیکل میں داخلہ ہو گیا تھا لیکن میں صرف اس لیے ڈاکٹر نہیں بن سکا کہ میں چلنے پھرنے سے قاصر تھا اور اکیلا شہر کے ہاسٹل میں نہیں رہ سکتا تھا ‘‘۔

بلوچستان کے ضلع لورالائی سے آے ہوئے عزیز الرحمان نے بھی اس بات کی شکایت کی کہ ملک میں معذور افراد کی مخفی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے موثر نظام موجود نہیں اور معاشرے میں ان کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ ہونے کے برابرہے جس کی وجہ سے ایسے افراد کو طب یا انجینیئرنگ کے شعبوں میں آنے کا موقع نہیں ملتا۔

فرحت عباس کئی سالوں سے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے معذور افراد کے لیے جو قومی پولیسی مرتب کی گئی ہے اس سے ان کی روزمرہ زندگیوں میں کوئی خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آتی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ سرکاری سطح پر ان کے روز گار کے لیے مختص کوٹے پر بھی پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

لیکن وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی بہبود کے وفاقی سیکرٹری اطہرطاہر اس تنقید کو مسترد کیا۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے معذور افراد کا کوٹا ایک سے دو فیصد تک بڑھا دیا ہے اور خود ان کی اپنی وزارت میں معذورافراد تین فیصد کوٹے پر ملازمت کر رہے ہیں۔

سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباََ دو فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہےلیکن عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ شرح دس فیصد کے لگ بھگ ہے۔

XS
SM
MD
LG