رسائی کے لنکس

'مذہب اور مسلک سے بالاتر ہو کر خدمات کا اعتراف ضروری'


پروفیسر ہود بھائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں اس طرح کے اقدام سے پاکستان میں ایک نئی فضا پیدا ہو گی جہاں کے ذہین نوجوانوں کو قابل تقلید شخصیات کی ضرورت ہے۔

پاکستان جہاں اکثر مذہبی اقلیتیں خاص طور پر احمدیہ برادری ناروا سلوک اور ایذا رسانیوں سے نالاں دکھائی دیتی ہے وہیں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں طبیعات کے تحقیقی مرکز کو ملک کی پہلی نوبیل انعام یافتہ شخصیت ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے کے فیصلے کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق بھی احمدیہ فرقے سے تھا اور انھوں نے 1979ء میں طبیعیات کے شعبے میں نوبیل انعام حاصل کیا تھا۔ لیکن 1974ء میں پاکستان کے آئین میں احمدیہ فرقے کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد سے مجموعی طور پر پاکستان کے اس نابغہ روزگار سائنسدان کی اس طرح سے پذیرائی نہیں کی گئی جس کے وہ حقدار تھے۔

طبیعیات کے معروف پروفیسر پرویز ہود بھائی قائداعظم یونیورسٹی میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے تحقیقی مرکز کو منسوب کیے جانے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ گو کہ یہ فیصلہ بہت دیر سے کیا گیا لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اب بھی روشن خیال لوگ موجود ہیں جو اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔

"یہ 1980ء میں ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ ہر طرف مذہبی تعصب عام ہے اور کسی حکومت نے یہ ہمت نہیں کی تھی کہ ایک انسٹیٹیوٹ پاکستان میں پروفیسر عبدالسلام کے نام سے منسوب کر دیا جائے، اب جو یہ حکومت نے اقدام کیا ہے میرے خیال میں پاکستان میں اب بھی کچھ روشن خیال لوگ ہیں اور وہ اثرورسوخ والے بھی ہیں۔"

پروفیسر ہود بھائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں اس طرح کے اقدام سے پاکستان میں ایک نئی فضا پیدا ہو گی جہاں کے ذہین نوجوانوں کو قابل تقلید شخصیات کی ضرورت ہے۔

"اگر ہم سائنسی کام کو پہچانیں اس نقطہ نظر سے کہ وہ کام کیا تھا اور اس کو درگزر کر دیں کہ وہ کام کرنے والا کون تھا، کس مذہب کس نسل سے اس کا تعلق تھا تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ایک نئی فضا پیدا ہوگی اور ہمیں قابل تقلید شخصیات کی بڑی اشد ضرورت ہے۔"

وزیراعظم نواز شریف نےبھی یونیورسٹی میں پروفیسر عبدالسلام سینیٹر فار فزکس کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی کامیابیاں اس بات کی حقدار ہیں کہ ان کا اعتراف کیا جائے۔

ڈاکٹر عبدالسلام 1960 سے 1974ء تک حکومت پاکستان کے مشیر برائے سائنس بھی رہے جب کہ اس کے علاوہ ملک میں سائنسی تحقیق سے متعلق سرکاری اداروں کے قیام میں ان کا اہم کردار رہا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1998ء میں پاکستان نے جب اپنے پہلے جوہری تجربات کیے تھے تو اس وقت سائنسدانوں کی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے اور ان میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے بھی ایک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔

تاہم 1996ء میں ان کے انتقال کے بعد سے ڈاکٹر عبدالسلام کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری یا ملکی سطح پر کوئی بڑی تقریب دیکھنے میں نہیں آئی۔

XS
SM
MD
LG