رسائی کے لنکس

پاکستان میں گھریلو صارفین بدستور گیس و بجلی کی قلت کا شکار


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کے ممبر شہریار آفریدی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں موجودہ قلت کی وجہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی کمزور پالیسی کو قرار دیا۔

پاکستان میں توانائی کا بحران نواز شریف انتظامیہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس پر حکومت میں شامل عہدیدار کے بقول آئندہ چند سالوں میں قابو پا لیا جائے گا۔

تاہم ملک میں سردی کی ایک تیز لہر سے قدرتی گیس کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کی قلت میں بھی سرکاری حکام کے مطابق غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

اسی صورتحال کے تناظر میں حکومت نے پنجاب میں گھریلو صارفین کی سہولت کے لیے سی این جی پمپس اور بیشتر صنعتوں کو گیس کی سپلائی معطل کردی ہے لیکن حالیہ دنوں میں ملک کے بیشتر حصوں میں گھریلو صارفین کو نا صرف بہت کم گیس دستیاب ہے بلکہ بجلی کی لوڈشیدنگ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کے ممبر شہریار آفریدی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں موجودہ قلت کی وجہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی کمزور پالیسی کو قرار دیا۔

’’پالیسی کا مقصد ہوتا ہے کہ آپ نتائج دیں۔ یہاں حقیقت میں نہیں ہوا۔ آپ نے کہا گھریلو صارفین کو ترجیح دی جائے گی آج انہیں گیس نہیں مل رہی۔ کھاد بنانے کے کارخانے 14 سے 17 فیصد گیس استعمال کرتے ہیں وہ بند ہیں تو وہ گیس کہاں ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ گیس فراہمی سے متعلق ادارے ’’اپنی نااہلی اور ناکامی‘‘ کو چھپانے کے لیے گیس کی چوری کا بہانہ بناتے ہیں جبکہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔

’’میں نے کمیٹی میں نشاندہی کی کہ ایسے علاقے جہاں ایسی چوریاں ہوتی ہیں مگر کوئی ایکشن نہیں۔ پہلے تو چوری کا بہانہ بناتے ہیں جب نشاندہی کریں تو ٹس سے مس نہٰں ہوتے۔‘‘

قدرتی گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے عہدیداروں کے مطابق پاکستان کو اس وقت مجموعی طلب کے مقابلے میں تقریباً دو ارب مکعب فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے اور پنجاب کے بعد صوبہ سندھ میں بھی چند صنعتوں کو گیس کی فراہمی روک دی گئی ہے۔

توانائی کے شعبے میں حکومت کے ایک مشیر مصدق ملک نے اس صورتحال کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں کی ان کے بقول غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ
’’ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم نے اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلا دیے ہیں۔ ہم نے جب فیصلے کیے تھے کہ ہم پائپ کے ذریعے لوگوں کے گھروں تک گیس پہنچائیں گے، اپنی صنعت کو گیس پر چلائیں گے اور گاڑیوں کو بھی پٹرول کی بجائے گیس پر چلائیں گے تو ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم شاید ایران ہیں یا قطر۔ وہ ناقص مفروضے تھے اور سیاسی بنیادوں پر کیے گئے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ نواز انتظامیہ حتیٰ الوسع اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم اس کے لیے گیس کے متبادل ذرائع پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے۔

’’ایل این جی درآمد کرنا ہوگی۔ میرے اندازے کے مطابق کئی چھوٹے گیس کے کنویں ہیں جن پر کم مراعات ہونے کی وجہ سے سالہا سال کام نہیں ہوا۔ اب حکومت نے اس پر مراعات 2 سے 6 ڈالر کردی ہے جبکہ سمندر میں گیس تلاش کرنے پر 11 ڈالر تک تو میرے خیال میں غیر ملکی کمپنیاں آئیں گی۔‘‘


تاہم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کم از کم دو سے اڑھائی سال لگیں گے۔

پاکستان کی کمزور معیشت کی ایک بڑی وجہ ماہرین کے مطابق توانائی کی قلت ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسے دور کیے بغیر پاکستان یورپی یونین کی جانب سے حالیہ تجارتی مراعات سے بھی فائدہ حاصل نہ کر پائے گا۔

عالمی مالیاتی ادارے اور ماہرین پاکستان سے توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ اسلام آباد اس شعبے میں دی جانے والی ان کے بقول غیر منصفانہ مراعات ختم کرے اور متعلقہ اداروں کی نجکاری سے ان کی کارکردگی کو بڑھائے۔
XS
SM
MD
LG