پاکستان کی ایک عدالت نے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی 'سی آئی اے' کے اسلام آباد میں سابق اسٹیشن چیف کے خلاف مقدمہ بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈرون حملہ کیس میں جوناتھن بینکس کے خلاف درج ایف آئی آر بحال کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاکستانی افراد انسان نہیں ہیں کیا؟ ایمل کاسی کو امریکہ بھیجا جا سکتا ہے تو مطلوب شخص کو کیسے پاکستان نہیں لایا جا سکتا؟
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے حاجی عبد الکریم خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ 2009ء میں ہونے والے ڈرون حملے میں ان کے بیٹے اور بھائی کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اسلام آباد پولیس نے اس پر ایف آئی آر تو درج کی لیکن بعد میں اسے فاٹا فاٹا منتقل کر دیا گیا تھا۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے کیس کی سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد غیر ملکی وفود کی اسلام آباد آمد کے باعث عدالت میں نہ پیش ہو سکے۔
عدالت نے چیف کمشنر اور پولیس کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف ایف آئی آر خارج کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا اور سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف جوناتھن بینکس کے خلاف مقدمہ بحال کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس صدیقی نے استفسار کیا کہ عدالت نے کب حکم دیا تھا کہ ڈرون حملے کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے خارج کر دیں جس پر تھانہ سیکرٹریٹ کے پولیس افسر نے عدالت سے معافی مانگی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیق نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنی ایجنسیوں کے خلاف تو غصے کا اظہار کرتے ہیں مگر سی آئی اے اور بلیک واٹر کے خلاف ہمت نہیں ہے، پاکستانی خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور آئی بی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، پاکستانی افراد انسان نہیں ہیں کیا؟ ذمہ داری سے بھاگنے والا کام قابل قبول نہیں، یہ توہین عدالت ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود آپ نے معاملہ کہیں اور بھیج دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اندراج مقدمہ کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔ درخواست گزار کے مطابق ان کے عزیز و اقارب کے قتل کی ذمہ داری پاکستان میں امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے کنٹری ڈائریکٹر جوناتھن بینکس پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی اہلکار کے خلاف یہ مقدمہ تھانہ سیکرٹریٹ میں درج کیا گیا تھا اور مقدمے کا نمبر 91 تھا جس میں قتل اور اعانت مجرمانہ کی دفعات لگائی گئیں۔