رسائی کے لنکس

ربیع کی فصلوں کی کاشت میں مشکلات کا اندیشہ


اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سیلاب سے وسیع پیمانے پر زرعی زمین زیر آب آنے سے اجناس کی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ ہزاروں کاشت کار گھرانوں کی سال بھر کی غذائی ضروریات کا لازمی جزو یعنی گندم کا حصول خطرے میں پڑ گیا ہے۔

عالمی ادارہ خوراک و زراعت ”ایف اے او“ کے عہدیدار ڈیوڈ ڈولن
عالمی ادارہ خوراک و زراعت ”ایف اے او“ کے عہدیدار ڈیوڈ ڈولن

عالمی ادارہ خوراک و زراعت ”ایف اے او“ کے عہدیدار ڈیوڈ ڈولن نے جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں کاشت کار اپنے کھیتوں سے دور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اگرجلد سے جلد اُن کی واپسی ممکن نہیں ہوتی تو آئندہ مہینوں میں ربیع کی فصلوں کی بو ائی خطرے میں پڑ جائے گی۔

”اگر غذائی اشیاء کی پیداوار کا عمل جلد از جلد دوبارہ شروع نہ کیا جا سکا تو ہمیں کاشت کاروں کو ایک طویل عرصے تک مدد فراہم کرنی پڑے گی “ ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بیشتر کِسان سال بھر خود اُگائی ہوئی گندم استعمال کر تے ہیں۔ ڈیوڈ ڈولن کا کہنا ہے کہ ربیع میں فصل کی بوائی نہ ہو نے سے کسانوں کو اگلی فصل 2012ء میں میسر آئے گی جس سے ایک تشویش ناک صورت حال جنم لے سکتی ہے۔

انھوں نے سیلاب زدہ دیہی علاقوں میں زندہ بچ جانے والے مویشیوں کے لیے چارے کی دستیابی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ اس سلسلے میں ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔

ربیع کی فصلوں کی کاشت میں مشکلات کا اندیشہ
ربیع کی فصلوں کی کاشت میں مشکلات کا اندیشہ

عالمی بنک نے سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ تقریباً ایک ارب ڈالر لگایا ہے جب کہ ادارے کا کہنا ہے کہ تباہ کن اثرات کا مکمل طور پر اندازہ پانی اترنے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔

ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے لگ بھگ 1,500 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ملک کے چاروں صوبوں سمیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں دو کروڑ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ جوں جوں سیلابی ریلا سندھ اور بلوچستان کے ذیلی علاقوں سے گزر رہا ہے متاثرین کی محفوظ مقامات پر نقل مکانی میں اضافہ ہورہا ہے ۔

نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ”یو این ایچ سی آر“ کے عہدے داروں نے بتایا کہ صوبہ سندھ کی حکومت نے متاثرین کے لیے قائم کیمپوں میں انتظامی امور کی دیکھ بھال میں تعاون کے لیے ان کے ادارے کی خدمات حاصل کرنے کے لیے باضابطہ طور پردرخواست کی ہے جس کا فوری طور پر مثبت جواب دیا گیا ہے۔

ان عہدے داروں کے مطابق ابتدائی دنو ں میں حکومت نے متاثرین کو سرکاری سکولوں اور دیگر عمارتوں میں عارضی پناہ فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی صورت حال جوں جوں واضح ہوتی جار ہی ہے اُن کے بقول لگتا ہے کہ سیلاب زدگان کی بحالی میں کہیں زیادہ وقت لگے گا اور ان کو سر چھپانے کے لیے خیمہ بستیاں قائم کرنی پڑیں گی۔

بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم آئیاو ایم کے عہدیدار برائن کیلی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کے مطابق سیلاب سے تقریباً نو لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور امدادی تنظیمیں اب تک ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد خاندانوں کو خیمے اور پلاسٹک شیٹس فراہم کر چکی ہیں لیکن اب بھی اندازاً پانچ لاکھ گھرانے اس کے منتظر ہیں۔

XS
SM
MD
LG