رسائی کے لنکس

اُمور خارجہ کی کمیٹی کے تین سالوں میں صرف 17 اجلاس: رپورٹ


قومی اسمبلی
قومی اسمبلی

ملک کو درپیش چیلنجوں کا جائزہ لینے اورمنتخب ایوانوں میں قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کا کردار بہت اہم تصور کیا جاتا ہے ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ پارلیمان کی اہم کمیٹیوں میں سے ایک ہے لیکن جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اس کمیٹی کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین سالوں کے دوران کمیٹی کے کل 17 اجلاس ہوئے جن میں ممبران کی حاضری محض38فیصد تھی ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اسفند یار ولی نے سات اجلاسوں کی سربراہی کی جب کہ تین سال کے دوران کمیٹی نے کوئی رپورٹ شائع نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران بھارت کی متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے 52 جب کہ برطانیہ کی اُمور خارجہ کمیٹی کے 82 اجلاس ہوئے۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلا ل محبوب کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے اراکین میں شامل حزب اختلا ف کی جماعتوں کے ممبران کی شرکت حکمران جماعت کے اراکین سے بھی کم رہی ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کے بعض اراکین کی شکایت ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی کئی اہم قراردادوں بشمول 2008ء میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمان کی مشترکہ قراداد پر عمل درآمد نا ہونے کی وجہ سے اُنھوں نے کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔

احمد بلال محبوب
احمد بلال محبوب

احمدبلال محبوب نے قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے بارے میں اپنی تنظیم کی رپورٹ کے بارے میں کہا ”اُمور خارجہ کی کمیٹی اہم ترین کمیٹیوں میں سے ایک ہے لیکن ہماری رپورٹ کے مطابق یہ فعال کمیٹی نہیں ہے اور موجودہ حالات میں جب خارجہ پالیسی پر بہت باتیں کی جارہی ہیں کمیٹی کو زیادہ موثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی اور کمیٹی کی سینیئر ممبر پلوشہ بہرام نے کمیٹی کا دفاع کر تے ہوئے کہا کہ کئی اہم امور پر اجلاس ہوئے ہیں ۔ ”ممبئی حملوں کے بعدکی صورت حال کے علاوہ افغانستان کے حالا ت اور امریکہ سے تعلقات سمیت کئی معاملات پر اجلاس منعقد کیے گئے ۔ لیکن مزید کام کی گنجائش ہے اس کا انکار نہیں۔“

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو مئی کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن کے بعد بھی کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پلوشہ بہرام نے کہا کہ ”ایبٹ آباد واقعہ کے بعد دو مرتبہ اجلاس بلایا گیا لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے وہ نہیں ہو سکا۔ بعد میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو ایبٹ آباد واقعے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی ضرورت نہیں تھی۔

پلڈاٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ نے 2010-11 کے دوران تین رپورٹس شائع کی ہیں ۔ احمد بلال اور کمیٹی کی رکن پلوشہ بہرام اس بات پر متفق ہیں کہ ملک درپیش چیلنجز اور بین الاقوامی سطح پر بدلتے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُمور خارجہ کی کمیٹی کے زیادہ سے زیادہ اجلاس منعقد کیے جائیں جن میں حالات کا جائزہ لے کر قومی سطح پر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے سفارشات مرتب کی جائیں۔

XS
SM
MD
LG