رسائی کے لنکس

گلگت میں معمولات زندگی بدستور معطل


گلگت سے تعلق رکھنے والے 18 افراد کی فرقہ وارانہ حملے میں ہلاکت کے دو روز بعد بھی پاکستان کے اس شمالی علاقے میں معمولات زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ شہر میں حالات بدستور کشیدہ جب کہ فضا سوگوار ہے۔

گلگت بلتستان کی حکومت کے ایک مشیر آفتاب حیدر نے جمعرات کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقے کے تمام کاروباری مراکز بند ہیں، اور انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ گلگت میں امن و امان کے قیام کے لیے دیگر اضلاع سے بھی پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی ہے جب کہ نیم فوجی سکیورٹی فورس ’رینجرز‘ کے اہلکار بھی تعینات ہیں۔

’’ہمارا علاقہ بڑا حساس ہے، یہاں پر ذرا سی بدامنی ہو جائے تو پورا علاقہ جام ہو جاتا ہے۔‘‘

آفتاب حیدر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بیشتر سرگرمیوں کا دارومدار شاہراہ قراقرم پر ہے جو منگل سے بند ہے۔

’’چین سے لے کر سارا کاروبار یہاں سے ہوتا ہے، اس طرح کے واقعات کا بہت ہی برا اثر پڑتا ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ تشدد کے حالیہ واقعے کے علاقے کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

’’گلگت، گلگت بلستان کا درالخلافہ ہے، تو تقریباً سارے سرکاری دفاتر یہاں پر ہی ہیں، تو یہاں اگر یہ متاثر ہو تو پورا گلگت بلتستان متاثر ہو جاتا ہے۔‘‘

گلگت بلتستان کی مقامی انتظامیہ نے منگل کو ضلع کوہستان میں کیے گئے مہلک حملے کے بعد ابتدائی طور پر تین دن کے لیے سرکاری اسکول اور دفاتر بند کر دیئے تھے، جبکہ اب حکام نے اعلان کیا ہے کہ تعلیمی ادارے مزید تین روز تک بند رہیں گے۔

فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے راولپنڈی سے گلگت جانے والی بسوں کو شاہراہ قراقرم پر ہربن نالا نامی غیر آباد مقام پر روک کر پہلے مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھے اور پھر شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو قطار میں کھڑا کر کے ان پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی تھی، جس سے 18 افراد ہلاک اور سات زخمی ہو گئے تھے۔

اُدھر جمعرات کو وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے گلگت بلتستان سے اسلام آباد واپسی پر صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور ہلاکتوں کے بارے میں اب تک تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے اُنھیں آگاہ کیا۔ سرکاری بیان کے مطابق صدر زرداری نے وزیرداخلہ کو ہدایت کی کہ وہ شاہراہ قراقرم پر سکیورٹی کے انتظامات یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔

دریں اثناء پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی ) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے، جہاں ضروری ہو فوج سے مدد لی جائے اور کوہستان میں شیعہ برادری کے 18افراد کے قتل میں ملوث ملزمان کا سراغ لگایا جائے۔

جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے گلگت جانے والی مسافر گاڑیوں میں سوار افراد کے قتل کی مذمت کی۔

ایچ آر سی پی نے بیان میں کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات کے علاوہ بس مسافرین پر حالیہ افسوس ناک حملے کی غیر جانبدارانہ اور آزاد اتھارٹی کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG