رسائی کے لنکس

ہیپاٹائٹس کے تیزی سے پھیلاؤ پر ماہرین کی تشویش


سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ہے جو کہ متعدی بیماریوں کے مریضوں کی پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ہیپاٹائٹس کی اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیں اور ماہرین صحت کے مطابق اس کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال غیر تصدیق شدہ انتقال خون ہیں۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ہے جو کہ متعدی بیماریوں کے مریضوں کی پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر اس بیماری سے متعلق آگاہی اور بچاؤ کے بارے میں مختلف تقاریب کا بھی انعقاد کیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او کے پاکستان میں ایک عہدیدار ڈاکٹر قائد سعید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا۔

’’صورتحال بہت سنگین ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ہے ہوتا یہ کہ عطائی (جعلی ڈاکٹرز) جو ہوتے ہیں وہ ان کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور پھر جو بھی ان کے آلات ہوتے ہیں انھیں پوری طرح صاف نہیں کیا جاتا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک ساتھ رہنے سہنے سے یہ وائرس نہیں پھیلتا اور مچھر یا کٹھمل کے کاٹنے سے اس کے پھیلاؤ کا کوئی تعلق نہیں اور یہ تاثر بالکل غلط ہے۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مرض پر قابو پانے کے لیے سرکاری سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں لیکن گزشتہ سال آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد متعدد وزارتیں اور محکمے صوبوں کو منتقل ہوگئے جن میں محکمہ صحت بھی شامل ہے۔

وزیراعظم کے خصوصی پروگرام برائے ہیپاٹائٹس سے منسلک ڈاکٹر سجاد احمد خان کہتے ہیں کہ تاحال صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور جو کام وہ لوگ گزشتہ پانچ سالوں میں کر چکے تھے وہ بھی وہیں دھرے کا دھرا رہ گیا ہے جو کہ ایک تشویشناک امر ہے۔

’’پورے پاکستان میں ہم نے لیباٹریاں بنائی تھیں، 152 سینٹر بنائے تھے ان کو ہم مفت کٹس فراہم کررہے تھے اور یہاں تک کہ علاج بھی فراہم کررہے تھے۔۔۔۔تو وہ سارا کچھ جو ہے نا اس پر سمجھیں پانی پھر گیا۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی خطرناک ضرور ہے لیکن اس کا علاج ممکن ہے اور ہیپاٹائٹس کی دیگر اقسام کے لیے اگر کوئی شخص ویکسینیشن کرا لے تو وہ بہت حد تک اس وائرس سے بچ سکتا ہے۔

ڈاکٹر سجاد کہتے ہیں ’’ہر شخص کو کم ازکم دوسال یا پھر ہرسال اپنا خون کا تجزیہ ضرور کرانا چاہیے۔۔۔ اور اگر اسے معلوم ہو جائے کہ اسے یہ وائرس لاحق ہے تو اس کا علاج ہوسکتا ہے ۔‘‘

ہیپاٹائٹس کا علاج مہنگا ہونے کے باعث پاکستان میں مریضوں کی اکثریت اس سے پوری طرح استفادہ نہیں کرسکتی لیکن طبی ماہرین کہتے ہیں کہ حفظان صحت کے اصولوں کو اپنا کر اور صفائی کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ روز مرہ معمولات میں ہوشیار رہنے سے ہیپاٹائٹس سمیت بہت سے بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
XS
SM
MD
LG